پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے دوحہ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان رات گئے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے، جسے انہوں نے ’صحیح سمت میں پہلا قدم‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیش رفت دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لیے ایک مثبت آغاز ہے۔
اسحاق ڈار نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اپنے پیغام میں برادر ممالک قطر اور ترکیہ کے تعمیری اور ثالثی کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان ممالک نے کشیدگی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اسحاق ڈار نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ’ہم ایک ٹھوس، قابل تصدیق اور موثر نگرانی کے نظام کے قیام کے منتظر ہیں، جس پر بات چیت ترکیہ کی میزبانی میں ہونے والی اگلی میٹنگ میں کی جائے گی‘۔
Welcome the Agreement finalized late last night in Doha. It is the first step in the right direction.
Deeply appreciate the constructive role played by brotherly Qatar and Turkiye.
We look forward to the establishment of a concrete and verifiable monitoring mechanism, in the…
انہوں نے مزید کہا کہ یہ نگرانی کا نظام ضروری ہے تاکہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف جاری دہشتگرد کارروائیوں کو روکا جا سکے اور مستقبل میں مزید جانی نقصان سے بچاؤ ممکن بنایا جا سکے۔
13 گھنٹے طویل مذاکرات، قطر کی میزبانی، ترکیہ کی ثالثی
میڈیا رپورٹ کے مطابق، قطر کی میزبانی اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات 13 گھنٹے تک جاری رہے، جن کے اختتام پر جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کیا گیا۔ مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی جبکہ افغان وفد کی نمائندگی قائم مقام وزیر دفاع ملا یعقوب مجاہد نے کی۔ اجلاس میں قومی سلامتی کے مشیر، آئی ایس آئی چیف اور افغان انٹیلی جنس سربراہ بھی شریک تھے۔
معاہدے کی اہم شقیں
معاہدے میں دونوں ممالک نے فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا، ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروہوں کی سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے تعاون پر رضامندی ظاہر کی، مستقبل کی نگرانی کے لیے ایک مشترکہ میکنزم پر بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا، ترکیہ میں آئندہ میٹنگ کی تجویز کو قبول کیا، رپورٹ کے مطابق جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں شکایات کا فوری ازالہ کرنے کے لیے ایک فریم ورک بنانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہوئے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں میں اضافہ ہوا، جن میں درجنوں افراد جان سے گئے۔ پاکستان نے 9 اکتوبر کو افغانستان میں موجود دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر فضائی کارروائیاں کی تھیں، جس کے بعد افغان طالبان نے جوابی حملے کیے۔
آگے کا راستہ
بین الاقوامی مبصرین اس معاہدے کو ایک عارضی مگر اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں، جو اگر عملی اقدامات اور مربوط نگرانی کے نظام سے مشروط ہو، تو پائیدار امن کی طرف لے جا سکتا ہے۔
اسحاق ڈار کے بیان اور دوحہ مذاکرات کے نتائج نے امید کی ایک نئی کرن روشن کی ہے کہ خطے میں امن کے لیے سفارتکاری اور تعمیری رابطے اب بھی ایک مؤثر راستہ ہیں۔