کیا رکشہ اور ٹیکسی کا دور ختم ہونے والا ہے؟ مستقبل کی سواری آ گئی

کیا رکشہ اور ٹیکسی کا دور ختم ہونے والا ہے؟ مستقبل کی سواری آ گئی

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور ٹرانسپورٹ کے ذرائع بھی جدید ٹیکنالوجی کے زیرِ اثر نئی شکل اختیار کر رہے ہیں ایک وقت تھا جب رکشہ اور ٹیکسی شہری سفر کا سب سے عام اور سستا ذریعہ تصور کیے جاتے تھے، مگر اب لگتا ہے کہ ان کی جگہ مستقبل کی جدید سواریوں نے لینا شروع کر دی ہے۔

گزشتہ چند سالوں میں الیکٹرک وہیکلز ای بائیکس اور رائیڈ شیئرنگ ایپس نے شہری ٹرانسپورٹ کے تصور کو یکسر بدل دیا ہے۔ جہاں کبھی رکشہ کے شور اور دھوئیں سے گلیاں بھر جایا کرتی تھیں، اب وہاں خاموش، ماحول دوست اور تیز رفتار برقی گاڑیاں دکھائی دے رہی ہیں۔

الیکٹرک گاڑیوں کا انقلاب

پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں الیکٹرک گاڑیوں کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہےمختلف کمپنیاں چھوٹی اور سستی الیکٹرک کاریں، ای رکشے اور اسکوٹرز متعارف کرا رہی ہیں، جو نہ صرف ماحول دوست ہیں بلکہ پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں کا متبادل بھی فراہم کرتی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے 5 سے 10 سالوں میں برقی سواریوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔ ان گاڑیوں کی مینٹیننس کم، ایندھن سستا اور کارکردگی زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب روایتی رکشہ اور ٹیکسی ڈرائیورز بھی اس تبدیلی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

ایپس اور ڈیجیٹل سروسز کا بڑھتا رجحان

اوبراور ان جیسے مقامی پلیٹ فارمز نے بھی سواری کے انداز بدل ڈالے ہیں اب لوگ سڑک پر رکشہ روکنے کے بجائے موبائل ایپ کے ذریعے گاڑی اپنے دروازے تک بلاتے ہیں یہ سہولت، وقت کی بچت اور محفوظ سفر نے عام لوگوں کو ڈیجیٹل سواریوں کی طرف راغب کیا ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ اب کئی کمپنیوں نے ای رکشہ اور الیکٹرک بائک کو بھی انہی رائیڈ شیئرنگ نیٹ ورکس میں شامل کرنا شروع کر دیا ہے، تاکہ سستا اور ماحول دوست سفر ممکن بنایا جا سکے۔

ماحولیاتی پہلو اور حکومت کے اقدامات

پاکستان میں فضائی آلودگی ایک بڑا مسئلہ ہے ماہرین کے مطابق روایتی رکشے اور پرانی ٹیکسیاں آلودگی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے الیکٹرک وہیکلز پالیسی متعارف کرائی ہے، جس کے تحت ملک میں ای گاڑیوں کی درآمد اور پیداوار پر خصوصی مراعات دی جا رہی ہیں وفاقی وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے مطابق 2030 تک ملک میں کم از کم 30 فیصد نئی گاڑیاں الیکٹرک نظام پر منتقل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

مستقبل کی جھلک

دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں اب ڈرائیور لیس گاڑیاں اور فلائنگ ٹیکسیز پر کام جاری ہے متحدہ عرب امارات میں ایسی پرواز کرنے والی ٹیکسیز کے ٹیسٹ ہو چکے ہیں، جو بغیر ڈرائیور مسافروں کو منزل تک پہنچاتی ہیں۔اگر یہ ٹیکنالوجی کامیابی سے عام ہو گئی تو واقعی روایتی رکشہ اور ٹیکسی کا دور اختتام کے قریب ہے۔

عام شہریوں کی رائے ہے کہ اگر الیکٹرک اور جدید سواریوں کے کرایے کم اور سہولت زیادہ ہو تو لوگ فوراً پرانی ٹرانسپورٹ چھوڑ دیں گے تاہم کچھ لوگ اب بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں رکشے اور ٹیکسیاں اگلے کئی سالوں تک موجود رہیں گی، کیونکہ یہ کم لاگت اور فوری دستیاب سروس ہیں۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *