اٹلی کے قریب بحیرہ روم میں تارکین وطن کی 2 علیحدہ علیحدہ کشتیاں ڈوبنے کے واقعات میں پاکستانیوں سمیت درجنوں افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ حادثات میں کم از کم 3 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے، جبکہ 35 سے زیادہ افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
خبر ایجنسیوں کے مطابق پہلا حادثہ اُس وقت پیش آیا جب ایک کشتی، جس میں 85 تارکینِ وطن سوار تھے، لیبیا کے ساحل سے اٹلی کی جانب روانہ ہوئی۔ کشتی میں پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ اریٹیریا اور سومالیہ کے شہری بھی شامل تھے۔ کشتی دورانِ سفر اُلٹ گئی، جس کے نتیجے میں اب تک 2 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ 11 افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔ باقی 72 افراد کی تلاش کے لیے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
دوسری کشتی میں 35 تارکینِ وطن سوار تھے۔ اس حادثے میں ایک شخص کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے، جبکہ 24 افراد لاپتہ ہیں۔ دونوں حادثات کے مقام پر اٹلی اور بین الاقوامی اداروں کی امدادی ٹیمیں موجود ہیں جو لاپتہ افراد کی تلاش میں سمندر کو کھنگال رہی ہیں۔
انسانی بحران میں اضافہ
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یو این ایچ سی آر‘ کے مطابق 2014 سے اب تک 32 ہزار سے زیادہ تارکین وطن یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ صرف 2025 کے آغاز سے اب تک مرکزی بحیرہ روم کے خطرناک راستے پر 900 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ حادثات ایک بار پھر اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ کس طرح غربت، جنگ اور بہتر مستقبل کی تلاش میں لوگ جان لیوا راستے اختیار کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں یورپی یونین سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ سمندر میں گشت بڑھائے، محفوظ راستے فراہم کرے، اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف مؤثر اقدامات کرے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کا ردِعمل
تاحال پاکستانی حکام کی جانب سے کسی ردِعمل یا ہلاک، لاپتہ افراد کی شہریت کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم، پاکستان میں مقیم متاثرہ خاندانوں سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ جلد حکام سے رابطہ کریں گے۔
لیبیا، تیونس اور دیگر شمالی افریقی ممالک یورپ جانے والے تارکین وطن کے لیے مرکزی روانگی پوائنٹس سمجھے جاتے ہیں۔ انسانی اسمگلر غیر محفوظ، گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو بحیرہ روم عبور کرانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں آئے دن ہولناک حادثات پیش آتے ہیں۔