امریکی سینیٹ نے ایک اہم اور علامتی قرارداد منظور کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک پر عائد کیے گئے “ٹرمپ ٹیرف” کو مسترد کر دیا ہے۔
یہ اقدام دراصل صدر ٹرمپ کی جانب سے استعمال کی گئی ایمرجنسی اختیارات کے خاتمے کے لیے کیا گیا، جن کے ذریعے انہوں نے کئی غیر ملکی مصنوعات پر بھاری درآمدی محصولات عائد کیے تھے۔
اس قرارداد پر ووٹنگ کے دوران تمام ڈیموکریٹس نے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ووٹ دیا، جبکہ حیران کن طور پر ری پبلکن پارٹی کے چار اراکین نے بھی اپنی ہی پارٹی کے صدر کے موقف کی مخالفت کی ، اس طرح قرارداد 47 کے مقابلے میں 51 ووٹوں سے منظور ہوئی۔
اگرچہ یہ قرارداد قانونی طور پر لازمی حیثیت نہیں رکھتی، تاہم اسے ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں کے خلاف امریکی سینیٹ کی واضح ناراضی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس سے قبل بھی سینیٹ نے ایک اور قرارداد میں امریکی صدر کے ان اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی تھی جن کے تحت انہوں نے مختلف ممالک پر یکطرفہ تجارتی پابندیاں عائد کی تھیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اسی اختیار کے تحت برازیل پر 50 فیصد اور کینیڈا پر 35 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا، ان اقدامات پر نہ صرف بین الاقوامی سطح پر تنقید ہوئی بلکہ امریکی صنعتوں اور صارفین کو بھی ان پالیسیوں کے باعث قیمتوں میں اضافے اور درآمدی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سینیٹ کا یہ اقدام اگرچہ علامتی ہے، مگر یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی قانون ساز ادارے ٹرمپ دور کی غیر روایتی تجارتی پالیسیوں سے فاصلہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ ایوان نمائندگان (ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز) میں اس حوالے سے کوئی باضابطہ قرارداد پیش نہیں کی جائے گی، تاہم اس بحث نے ایک بار پھر واشنگٹن میں اس سوال کو جنم دیا ہے کہ صدر کے اختیارات کو بین الاقوامی تجارت کے معاملات میں کس حد تک محدود یا وسیع ہونا چاہیے۔