پاکستان نے طالبان کی ’حقائق کو توڑ موڑ‘ کر پیش کرنے‘ کی کوشش مسترد کر دی، کابل سے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

پاکستان نے طالبان کی ’حقائق کو توڑ موڑ‘ کر پیش کرنے‘ کی کوشش مسترد کر دی، کابل سے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ صورتحال اور غیر مستحکم جنگ بندی کے دوران، پاکستان نے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے استنبول مذاکرات کے حوالے سے کی گئی ’حقائق کی دانستہ تحریف‘ کو سختی سے مسترد کر دیا۔

وزارت اطلاعات نے ایک بیان میں، جو ’ایکس‘پر جاری کیا گیا، کہا کہ استنبول مذاکرات کے دوران پاکستان نے مطالبہ کیا کہ ’افغانستان میں موجود اور پاکستان کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں کو یا تو گرفتار کیا جائے یا مؤثر طور پر قابو میں رکھا جائے۔‘

’جب افغان فریق نے دعویٰ کیا کہ یہ افراد پاکستانی شہری ہیں، تو اسلام آباد نے فوراً تجویز دی کہ انہیں نامزد سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے پاکستان کے حوالے کیا جائے، جو اس کے دیرینہ مؤقف کے عین مطابق ہے، ۔ وزارت نے مزید کہا کہ ’اس کے برعکس کوئی بھی دعویٰ غلط اور گمراہ کن ہے۔‘

ذبیح اللہ مجاہد کے الزامات

یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ کابل نے استنبول مذاکرات کے دوران اسلام آباد کو ایسے افراد کو ڈی پورٹ کرنے کی پیشکش کی تھی جنہیں پاکستان اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، تاہم پاکستان نے مبینہ طور پر یہ تجویز مسترد کر دی۔

یہ بھی پڑھیں:استنبول میں پاک افغان مذاکرات کا تیسرا روز : مذکرات میں تعطل کی بڑی وجہ سامنے آ گئی

مجاہد نے مزید کہا کہ اسلام آباد نے اس کے بجائے افغانستان سے کہا کہ وہ ان افراد کو اپنی حدود میں محدود رکھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ افغانستان کی پالیسی کے تحت مہاجرین کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں اور اگر پاکستان کوئی قابلِ اعتبار شواہد فراہم کرے تو کابل کارروائی کرے گا۔

طالبان ترجمان نے یہ الزام بھی لگایا کہ پاکستان کی حالیہ سرگرمیاں ’امریکا کی بگرام ایئر بیس پر ممکنہ واپسی کے لیے حالات پیدا کرنے کی کوشش‘ معلوم ہوتی ہیں۔ اسلام آباد نے ان الزامات کو ’بنیاد سے عاری پروپیگنڈا‘ قرار دیا۔

دفاعی وزیر خواجہ آصف کا ردِعمل

وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک علیحدہ بیان میں طالبان ترجمان کے ’شر انگیز اور گمراہ کن‘ ریمارکس کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت کے درمیان افغانستان سے متعلق پالیسی اور خطے میں امن و استحکام کے لیے مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ ’پاکستانی عوام، خاص طور پر خیبرپختونخوا کے لوگ، افغان طالبان حکومت کی ’بھارت نوازی اور دہشتگردی کی سرپرستی‘ سے بخوبی واقف ہیں،‘ ۔ انہوں نے طالبان پر الزام عائد کیا کہ وہ دہشتگرد گروہوں کو پناہ دے کر پاکستان میں دہشتگردی کو ہوا دے رہے ہیں۔

وزیر دفاع نے مزید کہا کہ طالبان کی حکومت ’غیر نمائندہ، اندرونی تقسیم کا شکار‘ ہے اور وہ افغانستان میں اقلیتوں، خواتین اور بچوں پر ظلم و ستم ڈھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’اقتدار سنبھالنے کے چار سال بعد بھی طالبان حکومت اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہے اور اپنی ناکامیوں کو بیانات اور پراپیگنڈے سے چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

بڑھتی کشیدگی اور عارضی جنگ بندی

2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے پاکستان میں خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسلام آباد مسلسل افغان حکومت سے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کو لگام دے جو افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب 12 اکتوبر کو طالبان فورسز کی جانب سے بلا اشتعال سرحد پار فائرنگ کی گئی، جس کے جواب میں پاکستانی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے 200 سے زیادہ جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا۔ جھڑپوں میں 23 پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔

مزید پڑھیں:پاکستان ثالثین کی درخواست پرافغان طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل دوبارہ شروع کرنے پر رضامند، وفد نے استنبول میں قیام بڑھا دیا

بعد ازاں، قطر کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں 17 اکتوبر کو دونوں ممالک کے درمیان عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔ پہلی ملاقات دوحہ میں ہوئی جبکہ دوسرا دور ترکیہ کے شہر استنبول میں 25 تا 31 اکتوبر تک جاری رہا۔

استنبول مذاکرات کسی بریک تھرو کے بغیر ختم ہو گئے کیونکہ طالبان نے اس بات کی ضمانت دینے سے انکار کر دیا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

تاہم پاکستان نے سفارتی روابط برقرار رکھنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے تصدیق کی کہ دونوں ممالک کے درمیان اگلا دور مذاکرات 6 نومبر کو متوقع ہے، تاکہ سرحدی کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *