آئینی ترمیم پر حکومت، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کا مسودہ سامنے آگیا ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے متعلق حکومتی مسودے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کے نکات بھی پیش کیے گئے ہیں۔
حکومت نے وفاقی آئینی عدالت بنانے کا منصوبہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ شیئر کیا ہے اور اس کے قیام کے لیے ڈھانچہ تیار کر لیا ہے۔ حکومتی مسودے کے مطابق، وفاقی آئینی عدالت میں چیف جسٹس سمیت 7 ارکان ہوں گے۔ چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز رکن ہوں گے۔ اس کے علاوہ، وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور بار کونسل کا نمائندہ بھی شامل ہوگا، جبکہ حکومت اور اپوزیشن سے دو دو ارکان بھی لیے جائیں گے۔
صوبائی عدالتوں کے لیے چیف جسٹس، صوبائی وزیر قانون اور بار کونسل کے نمائندے پر مشتمل ڈھانچہ ہوگا۔ جج کی تقرری کے لیے نام مشاورت کے بعد وزیراعظم کو بھیجے جائیں گے۔ وفاقی آئینی عدالت کے باقی ممبران کا تقرر صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے، اور ججوں کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیراعظم کو دیے جائیں گے۔
مجوزہ ترمیم کے تحت جج کی عمر 40 سال، 3 سالہ عدالتی اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ لازمی ہوگا۔ جج کی برطرفی کے لیے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائے گی، اور کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدر مملکت دیں گے۔ وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے کسی دوسری عدالت میں چیلنج نہیں کیے جا سکیں گے، جبکہ صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہوگی۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوگا، اور یہ تقرر 3 سینئر ترین ججز میں سے کیا جائے گا۔
جے یو آئی (ف) نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے لیے 24 ترامیم تجویز کی ہیں، جن میں آرٹیکل 175اے میں ترمیم، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں آئینی بینچ تشکیل دینے، اور سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت 5 سینئر ججز پر مشتمل بینچ کی تجویز شامل ہے۔ انہوں نے 175 اے میں ترمیم، 19ویں ترمیم کا خاتمہ، اور 18ویں ترمیم کی مکمل بحالی کی بھی تجویز دی ہے۔
پیپلز پارٹی کا آئینی مسودہ:
پیپلز پارٹی نے آرٹیکل 184 کو ختم کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہو جائے۔ انہوں نے 5 ججز پر مشتمل ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی ہے، جس کے چیف جسٹس آئینی عدالت کی سربراہی کریں گے۔ ہر صوبے سے باری باری آئینی عدالت کے چیف مقرر ہوں گے، اور چیف جسٹس کی مدت 3 سال ہوگی۔ پیپلز پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا اور کسی بھی فورم پر اپیل نہیں کی جاسکے گی۔
ان تجاویز کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس ججز کی تقرری کے لیے آئینی کمیشن کے قیام کی بھی تجویز دی ہے، جس میں مختلف اعلیٰ عہدوں کے نمائندے شامل ہوں گے۔