اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ 2 کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی ضمانت منظور کرلی جس کے بعد قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ وہ جیل سے رہا ہوجائیں گے۔ تاہم ان کی رہائی ستمبر اور اکتوبر میں راولپنڈی میں درج مقدمات میں ممکن نہیں ہے۔
تفصیلات کے مطابق عمران خان کیخلاف 28 ستمبراور 5 اکتوبر کے احتجاج پر 3 مقدمات درج ہوئے تھے، راولپنڈی میں درج مقدمات میں سابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی ابھی تک گرفتاری نہیں کی گئی ۔ یہ تمام مقدمات انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کیے گئے تھے ۔
9 مئی سے متعلق پانچ مقدمات میں بانی چیئرمین اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں اور ان مقدمات کی سماعت 27 نومبر کو ہوگی۔ چونکہ ان کے ضمانتی مچلکے جمع نہیں کرائے گئے ہیں اس لئے پنجاب پولیس کی جانب سے ان مقدمات میں گرفتاریوں کا بھی امکان ہے۔
عمران خان کیخلاف تھانہ نصیر آباد، نیوٹاون اور ٹیکسلا میں مقدمات درج ہیں ، 9 مئی کے 5 مقدمات میں ضمانت کے باوجود ضمانتی مچلکے جمع نہیں کرائے گئے۔ ضمانتی مچلکے داخل ہونے کے بعد راولپنڈی کی اے ٹی سی رہائی کا حکم جاری کرے گی۔
اس کے علاوہ عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈ کے کیس میں ان کی بریت کی درخواست ہائی کورٹ پہلے ہی مسترد کر چکی ہے اور ٹرائل کورٹ میں جاری ہے۔ تاہم اس معاملے میں سزا ناگزیر معلوم ہوتی ہے۔
اسی طرح یاسمین راشد اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ کیے بغیر عدالتی تاریخوں میں تاخیر ہوتی رہتی ہے، اسی طرح قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس کیس کو بھی اسی طرح نمٹا جائے گا۔
دوسری جانب یہ محض اتفاق نہیں کہ آج عمران خان کو ضمانت مل گئی ہے، کیونکہ کچھ عرصہ پہلے بشری بی بی کو بھی رہا کر دیا گیا تھا اور جیل میں ملاقاتیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو بڑے احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔ جس میں پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے حکومت کو تین اہم مطالبات پیش کیے جائیں گے۔ ان مطالبات میں سب سے پہلے عمران خان کی فوری رہائی ہے جو ان کی انتخابی مہم کا مرکزی نکتہ رہے ہیں۔