مودی سرکار کے زیرِ سایہ بھارت ایک ایسے تضاد کا شکار ملک بن چکا ہے جو دنیا کے سامنے خود کو “چمکتا دھمکتا بھارت” کے طور پر پیش کرتا ہے، مگر اس کا اندرونی منظر ایک خوف زدہ، بندوقوں کے سائے میں پلتی ہوئی ریاست کا عکاس ہے۔
منی پور کے کھیتوں میں کسان اب ہل کے ساتھ رائفلوں کی حفاظت میں فصل بوتے ہیں، اور اختلاف رائے کو جمہوری حق کے بجائے خطرہ تصور کر کے کچلا جاتا ہے۔ جس ملک کی داخلی سلامتی کا انحصار نیم فوجی دستوں پر ہو، وہاں جمہوریت صرف ایک دعویٰ رہ جاتی ہے، حقیقت نہیں۔ آزاد ریسرچ ڈیسک کی اس خصوصی تحقیق میں بھارت کے اس اندرونی سیکیورٹی ماڈل کو بے نقاب کیا گیا ہے جو اپنی اصل میں ایک جمہوری ریاست نہیں، بلکہ ایک سیکیورٹی پروجیکٹ بن چکا ہے۔
ایک بار پھر بھارت کے اندرونی سیکیورٹی نظام کی کمزوریاں عالمی سطح پر بے نقاب ہو چکی ہیں۔ اس بار واقعہ شمال مشرقی ریاست منی پور کے سرسبز پہاڑوں کے دامن سے سامنے آیا ہے، جہاں مقامی کسانوں کو صرف چاول بونے کے لیے سی آر پی ایف اور بی ایس ایف جیسے نیم فوجی دستوں کے سائے میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ ملک جو خود کو ایک ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت اور عالمی قیادت کے امیدوار کے طور پر پیش کرتا ہے، وہاں کے عام کسان بھی اب کھیتی باڑی جیسے بنیادی کام فوجی پہرے کے بغیر نہیں کر سکتے۔
سیکمائی کے حالیہ واقعے میں اس وقت سنسنی پھیل گئی جب کھیتوں میں مصروف کسانوں پر فائرنگ کی گئی۔ اس واقعے کے نتیجے میں ایک کُکی خاتون گولی لگنے سے جان کی بازی ہار گئی۔ حکومت نے فوراً نیم فوجی دستے تعینات کر دیے تاکہ کسانوں کو “تحفظ” فراہم کیا جا سکے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جس ملک میں کھیت سنبھالنے کے لیے بھی بندوق درکار ہو، وہ آخر کس طرح ایک پُرامن، مضبوط اور جمہوری ریاست کہلانے کا حق دار ہے؟
آزاد ریسرچ ڈیسک کے مطابق بھارت اب اپنی سرحدوں کی حفاظت سے زیادہ اپنی داخلی بقا کے لیے مصروف نظر آتا ہے۔ وہ اپنے ہی شہریوں کو دوسرے شہریوں سے بچانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ شمال مشرقی ریاستیں جیسے منی پور، ناگالینڈ، میزورم اور آسام دہائیوں سے نسلی تناؤ، بغاوتوں اور ریاستی بے اعتباری کی آگ میں جھلس رہی ہیں۔ کشمیر میں آج تک پائیدار سیاسی حل ممکن نہیں ہو سکا، پنجاب کی تاریخی ناراضگی بدستور موجود ہے اور تمل ناڈو میں خودمختاری کے مطالبات ایک بار پھر زور پکڑ رہے ہیں۔ یہ تمام مظاہر اس حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ بھارت کی اندرونی وحدت درحقیقت ایک مسلط کردہ بندوبست ہے، جو جمہوری ہم آہنگی سے زیادہ عسکری نظم و ضبط کا مرہونِ منت ہے۔
بھارت میں درجنوں اقوام اور نسلی گروہ ایسے ہیں جو “ضم ہونے” کی خواہش نہیں رکھتے بلکہ وقار، آزادی اور سیاسی شناخت کے خواہاں ہیں۔ ناگا، میزو، میتیی، کُکی، بوڈو، کشمیری، سکھ، آسامیا اور جنوبی دراوڑی قومیں اس وقت ایک ایسی ریاست میں زندگی گزار رہی ہیں جو ان سے ان کی اصل پہچان چھین کر صرف ایک مرکزی شناخت مسلط کرنا چاہتی ہے۔ ان کے مطالبات کا جواب ریاست بندوق، نوآبادیاتی قوانین اور میڈیا کنٹرول کے ذریعے دیتی ہے۔ اختلاف رائے کو نہ صرف روکا جاتا ہے بلکہ دبایا بھی جاتا ہے۔
ایسے وقت میں جب بھارتی سفارتکار مغربی دنیا میں “چمکتے بھارت” کا خواب فروخت کرتےپھر ہیں، حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ دو سو تیس ملین سے زائد بھارتی شہری اب بھی شدید غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 2025 میں بھی انیس کروڑ سے زیادہ افراد کھلے آسمان تلے رفع حاجت پر مجبور ہیں۔ پندرہ فیصد سے زیادہ آبادی کو بیت الخلا جیسی بنیادی سہولت دستیاب نہیں۔ ایسے حالات میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل نشست کا خواب حقیقت سے زیادہ ایک سیاسی دعویٰ دکھائی دیتا ہے۔
نئی دہلی جب “چمکتا دمکتا بھارت” جیسے نعروں سے اپنی تشہیر کرتا ہے تو دنیا کے سامنے پیش کی جانے والی تصویر ایک ایسے ملک کی ہوتی ہے جو ترقی کی طرف گامزن ہے، لیکن اندرونی طور پر یہ ریاست خوف، محرومی، نسلی کشمکش، اور ریاستی جبر میں جکڑی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی یونین ہے جو ایک متحد قوم کے بجائے مختلف اقوام کا زبردستی جوڑا گیا مجموعہ محسوس ہوتی ہے، جسے صرف بندوق، سرکاری پروپیگنڈہ اور بین الاقوامی داد و تحسین کی چادر میں چھپایا گیا ہے۔
آزاد ریسرچ ڈیسک کی اس خصوصی تحقیق کے مطابق بھارت اب محض اختلاف رائے کو قابو میں رکھنے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ روزمرہ زندگی کو بھی ریاستی تسلط کے ذریعے کنٹرول کر رہا ہے۔ اور جو ملک اپنی اندرونی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے بندوق کا سہارا لے، وہ جمہوریت نہیں بلکہ ایک سیکیورٹی پروجیکٹ بن چکا ہوتا ہے جو وقت کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔