ایئرانڈیا حادثہ: 98 سیکنڈز میں 260 ہلاکتوں کا ذمہ دار کون؟ ابتدائی رپورٹ جاری

ایئرانڈیا حادثہ: 98 سیکنڈز میں 260 ہلاکتوں کا ذمہ دار کون؟ ابتدائی رپورٹ جاری

بھارتی شہر احمد آباد میں مسافر طیارے کو حادثہ کیوں پیش آیا، رپورٹ سامنے آگئی، حادثہ دونوں انجنوں کو ایندھن سپلائی بند ہونے کے سبب ہوا۔

12  جون کو احمد آباد سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز ”AI171“، صرف 98 سیکنڈ کی پرواز کے بعد زمین بوس ہوگئی ، بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر طیارہ ہوائی اڈے کی باڑ پھلانگنے سے پہلے ہی گر کر تباہ ہوا، جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار 241 مسافر اور عملہ سمیت زمین پر موجود 19 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ  صرف ایک شخص معجزاتی طور پر زندہ بچا۔

بھارت کے ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو (AAIB) کی ابتدائی 15 صفحات پر مشتمل رپورٹ منظرِ عام پر آ چکی ہے جس نے حادثے کی وجوہات، جہاز کے تکنیکی ریکارڈ، پرواز کے لمحات، اور پائلٹس کی آخری گفتگو کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔

رپورٹ کے بعد یہ سوال شدت سے اٹھ رہا ہے کہ آیا یہ حادثہ انسانی غلطی کا نتیجہ تھا یا کسی تکنیکی خرابی کا؟

98 سیکنڈ کی تباہ کن پرواز

1:38PM (انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ ٹائم) پر AI171 نے ٹیک آف کی اجازت حاصل کی ، 32 سیکنڈ میں طیارہ فضا میں بلند ہو چکا تھااور چار سیکنڈ بعد جہاز نے زمین سے مکمل علیحدگی حاصل کی، اگلے 3 سیکنڈ میں ایئر اسپید 334 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ گئی اسی وقت دونوں انجن بند ہو گئے۔

Ram Air Turbine (RAT) خودکار طور پر متحرک ہوئی تاکہ بجلی کی کمی کو پورا کیا جا سکے، مے ڈے کال 1:39 PM پر دی گئی، محض 6 سیکنڈ بعد جہاز زمین پر گر چکا تھا۔

 یہ خبر بھی پڑھیں :احمد آباد طیارہ حادثہ: سبرامنیم سوامی کا وزیرِ اعظم مودی اور وزراء سے استعفے کا مطالبہ

رپورٹ کے مطابق حادثے سے چند سیکنڈ پہلے دونوں انجنوں کے فیول کٹ آف سوئچز کو ”RUN“ سے ”CUTOFF“ پر منتقل کر دیا گیا، یعنی ایندھن کی فراہمی بند کر دی گئی ، یہ حرکت جہاز کے بلند ہونے کے محض چند سیکنڈ بعد ہوئی، انجن فوراً بند ہو گئے اور طیارہ نیچے گرنے لگا۔

پائلٹس کے درمیان مکالمہ، انسانی غلطی یا تکنیکی خرابی؟

کاک پٹ وائس ریکارڈر کے مطابق ایک پائلٹ نے دوسرے سے پوچھا: ”تم نے فیول کیوں بند کیا؟“ جواب آیا: ”میں نے بند نہیں کیا!“

یہ مکالمہ اس قیاس کو تقویت دیتا ہے کہ یا تو ایک پائلٹ نے غلطی سے فیول بند کر دیا یا کسی تکنیکی خرابی کے باعث فیول کٹ آف سوئچز نے خودکار طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔

RAT یعنی ”Ram Air Turbine“صرف اس صورت میں متحرک ہوتی ہے جب جہاز کو مکمل برقی یا ہائیڈرالک طاقت سے محرومی کا سامنا ہو۔ RAT کی حرکت نے اس بات کی تصدیق کی کہ جہاز کے دونوں انجن مکمل طور پر بند ہو چکے تھے اور سسٹمز ناکارہ ہو چکے تھے۔

بعد ازاں پائلٹس نے فیول سوئچز دوبارہ ”RUN“ پر کر دیے، جس سے ایک انجن نے جزوی بحالی کی کوشش کی لیکن وقت کی کمی اور رفتار کے شدید زوال کے باعث طیارہ سنبھالا نہ جا سکا۔

تکنیکی پہلو کی بات کریں تو یہ سوال ذہن میں آتے ہیں کہ فیول کٹ آف سوئچز خود بخود ”CUTOFF“ پر کیوں گئے؟ کیا کوئی سسٹم گلیچ (glitch) تھا جس نے انجن بند کیے؟

RAT جیسے آخری ہنگامی نظام کا ابتدائی مرحلے میں حرکت کرنا خود ایک خطرے کی علامت ہے۔

انسانی پہلو کو سامنے رکھیں تو سوال بنتا ہے کہ اگر ایک پائلٹ نے غلطی سے سوئچ بند کیے، تو دوسرے نے فوری ردعمل کیوں نہ دیا؟ تربیت یافتہ پائلٹس کے درمیان اس سطح کی کنفیوژن کیسے ممکن ہوئی؟ پائلٹس نے جہاز کے مکمل سسٹم کو بحال کرنے کی کوشش کی، لیکن وقت اور اونچائی دونوں ان کے خلاف تھے۔

تحقیقات کے مطابق صبح 6:40 بجے تکنیکی کلیئرنس دی گئی تھی ، پائلٹس نے 6:25 پر بریتھ انالائزر ٹیسٹ پاس کیا، روانگی سے پہلے جہاز میں کوئی میکانیکی خرابی رپورٹ نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:بھارتی طیاروں کی تباہی کے ناقابل ترید شواہد منظر عام پر آگئے

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ طیارہ پرواز کے لیے تکنیکی لحاظ سے تیار تھا۔

ایئر انڈیا نے AAIB کی رپورٹ پر براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاملہ تاحال تحقیقات کے مراحل میں ہے اور وہ مکمل تعاون فراہم کر رہے ہیں۔

بوئنگ اور GE (جنہوں نے انجن فراہم کیے) کو تاحال کوئی حفاظتی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں درج ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں:

تکنیکی خرابی کے امکانات موجود ہیں، خاص طور پر اگر فیول سوئچز خودبخود ”CUTOFF“ پر گئے ہوں۔

انسانی غلطی کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سوئچز کی حرکت، کاک پٹ کی کنفیوژن، اور تاخیر سے بحالی کی کوششیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں۔

سسٹم ڈیزائن کی پیچیدگی بھی ایک عنصر ہو سکتی ہے؛ اگر پائلٹس حادثاتی طور پر سوئچز بند کر بیٹھے تو یہ ایک ”Human-Machine Interface“ کی ناکامی ہے۔

AAIB اب مزید تکنیکی اجزاء کا تجزیہ کرے گا، جنہیں حادثے کے مقام سے برآمد کر کے محفوظ کھا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں :بھارتی فضائیہ کے سنگل سیٹ جگوار طیارہ حادثے میں 2ہلاکتیں؟ مبصرین نے سوالات اٹھا دیے

کاک پٹ آڈیو، پرواز کے ڈیٹا، اور میکانیکی نظام کی گہرائی سے جانچ کی جائے گی تاکہ اصل وجہ سامنے آ سکے۔

آزاد فیکٹ چیک رپورٹ 

ابتدائی رپورٹ میں ایئر انڈیا فلائٹ AI171 کے حادثے کو اُڑان کے دوران انجنز کو ایندھن کی فراہمی میں خلل کی وجہ سے قرار دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے انجن کی طاقت میں کمی آئی اور طیارے کی ہوا کی رفتار اور بلندی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں حادثہ پیش آیا۔

ایندھن کے کٹ آف سوئچز کو رن سے کٹ آف میں منتقل کرنے کے دوران ایک سیکنڈ کا وقفہ آیا۔

آزاد فیکٹ چیک کے مطابق یہ سوئچز جو انجنز کو ایندھن کی فراہمی کو کنٹرول کرتے ہیں، میں ایک لفٹ اینڈ فلپ میکانزم ہوتا ہے، جس کے لیے ایک جان بوجھ کر کارروائی درکار ہوتی ہے۔ پائلٹ کو سوئچ کو اوپر کی طرف کھینچنا ہوتا ہے تاکہ وہ سپرنگ لوڈڈ لاک کو کھول سکے، پھر سوئچ کو رن اور کٹ آف کے درمیان منتقل کیا جا سکتا ہے۔

حفاظتی  خصوصیات

ان سوئچز میں حفاظتی بریکٹس اور دھاتی اسٹاپ لاک ہوتے ہیں جو غیر ارادی طور پر سوئچ کے حرکت کرنے کے امکانات کو کم کرتے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سوئچ کو جان بوجھ کر منتقل کیا گیا تھا۔

آزاد فیکٹ چیک  کے مطابق  چونکہ ایندھن کے کٹ آف سوئچز کو جان بوجھ کر رن سے کٹ آف کی پوزیشن میں منتقل کیا جانا ضروری ہے، اس سے یہ مضبوط طور پر اشارہ ملتا ہے کہ یہ یا تو اہم پائلٹ کی غلطی تھی یا طیارے کے حادثے کا جان بوجھ کر سبب بننے کی نیت سے کیا گیا تھا۔

اس اہم کارروائی نے طیارے کے سسٹمز کی معمول کی کارکردگی میں خلل ڈالا، جس سے انسانی مداخلت اس حادثے میں ایک اہم عنصر ثابت ہوتی ہے۔

ایئر انڈیا طیارہ حادثہ ایک المناک سانحہ ہے جس نے انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ  تکنیکی نظام پر بھی  کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں،  ابتدائی رپورٹ انسانی اور تکنیکی دونوں پہلوؤں کی طرف نشاندہی کرتی ہے لیکن حتمی ذمہ داری کا تعین مزید تحقیقات کے بعد ہی ممکن ہوگا۔

یہ حادثہ اس بات کا  ثبوت ہے کہ محض چند سیکنڈ کی کوتاہی یا خرابی، جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس طیارے کو بھی ملبے کا ڈھیر بنا سکتی ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *