ملتان جانے والی مسافر بس کے چکری انٹرچینج کے قریب اسلام آباد، لاہور موٹر وے (ایم 2 ) پر الٹنے اور کھائی میں گرنے کے نتیجے میں کم از کم 6 افراد، جن میں 4 خواتین شامل ہیں، جاں بحق جبکہ 27 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر وے پولیس اور ریسکیو 1122 کے مطابق، حاجی عبد الستار کمپنی کی یہ بس راولپنڈی سے ملتان جا رہی تھی جس میں 41 مسافر سوار تھے۔ حادثہ 12:30 بجے اس وقت پیش آیا جب بس چکری انٹرچینج کو عبور کرنے کے فوراً بعد الٹ گئی۔
موٹر وے پولیس کے ایک اہلکار نے میڈیا کو بتایا کہ 5 افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جبکہ ایک شخص زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر (ڈی ایچ کیو) اسپتال چکوال میں دم توڑ گیا۔ زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، جنہیں چکوال، راولپنڈی اور اسلام آباد کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔
ڈی ایچ کیو اسپتال چکوال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مختار سرور نیازی نے تصدیق کی کہ اسپتال میں 28 زخمیوں کو لایا گیا۔ انہوں نے کہا، ایک شخص کو مردہ حالت میں اسپتال لایا گیا، جبکہ ایک اور مریض زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گیا۔ چار مریضوں کو راولپنڈی ریفر کر دیا گیا‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسپتال میں اس وقت 3 مرد، 2 خواتین اور 6 بچے زیرِ علاج ہیں۔ جاں بحق افراد کی شناخت ظفر اقبال (40 سال)، ثمینہ ناصر (50 سال)، ماریج فہیم (18 سال) اور نویدہ ناہید (40 سال) کے طور پر ہوئی ہے۔ 2 افراد کی شناخت تاحال نہیں ہو سکی۔ مسافر مختلف شہروں سے تعلق رکھتے تھے جن میں ملتان، میاں چنوں، جھنگ، خانیوال، ٹیکسلا، آزاد کشمیر اور واہ کینٹ شامل ہیں۔
موٹر وے پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ موٹر وے پولیس کے مطابق حادثے کی وجہ ڈرائیور کی غفلت تھی جو بارش کے باعث پھسلن کے باوجود تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا۔ ڈرائیور بس پر قابو نہ رکھ سکا اور حادثہ پیش آیا۔ وہ موقع سے فرار ہو گیا ہے اور اس کے خلاف چکری تھانے میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے‘۔
حادثے میں زخمی ایک خاتون عینی شاہد نے بتایا کہ ڈرائیور تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا، جس کی وجہ سے وہ بس پر قابو نہ رکھ سکا۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو چکوال، محمد شہاب اسلم نے ڈی ایچ کیو اسپتال کا دورہ کیا اور زخمیوں کی عیادت کی۔ انہوں نے اسپتال انتظامیہ کو زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
یہ حادثہ خراب موسم میں ہائی وے پر ڈرائیوروں کی تربیت اور حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد سے متعلق تشویش میں ایک بار پھر اضافہ کا سبب بن گیا ہے۔