یوٹیوبر اور خودساختہ سیاسی تجزیہ کار عادل فاروق راجہ کے خلاف برطانوی عدالت کا فیصلہ کچھ ہی دیر میں متوقع ہے۔ یہ ہتکِ عزت کا مقدمہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر راشد نصیر کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، جنہوں نے مؤقف اپنایا ہے کہ عادل راجہ نے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف بے بنیاد، جھوٹے اور ہتک آمیز الزامات لگائے۔
یہ مقدمہ لندن کی رائل کورٹس آف جسٹس میں زیر سماعت ہے، جہاں عادل راجہ کے خلاف نہ صرف ان الزامات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، بلکہ یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انہیں بھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ سزا کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ عدالت کی جانب سے حتمی فیصلہ آج سنایا جائے گا۔
عادل راجہ پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ریٹائرڈ بریگیڈیئر راشد نصیر پر سنگین الزامات عائد کیے، جن میں بدعنوانی، انتخابی عمل میں مداخلت، عدالتی نظام پر اثراندازی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ راشد نصیر کے مطابق یہ الزامات سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں اور ان کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔
گواہی اور مقدمے کی تفصیلات
مقدمے کی کارروائی کے دوران بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر نے عدالت کو بتایا کہ عادل راجہ کے لگائے گئے جھوٹے دعووں نے ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ عادل راجہ نے ان کے اہلِ خانہ اور بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔، اس عمل سے ان کے بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر ہونا پڑا، یہاں تک کہ تعلیمی ادارے تبدیل کرنے پڑے۔ ایک شخص، جو راجا کا فالوور تھا، نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی اور بعد ازاں گرفتاری کے بعد اعتراف کیا کہ وہ عادل راجہ کے بیانات سے متاثر ہو کر ایسا کرنے پر آمادہ ہوا۔
راشد نصیر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے دوستوں اور اہل خانہ کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ان کی تفصیلات فراہم کرنے سے قاصر ہیں، کیونکہ آن لائن حملوں اور ہراسانی کے خدشات شدید ہو چکے ہیں۔
عادل راجہ کا مؤقف
عادل راجہ، جو خود کو ’’انکشاف کرنے والا‘‘ قرار دیتے ہیں، نے ان الزامات کا مختلف مواقع پر دفاع کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم ذرائع کے مطابق انہیں ماضی میں بھی کئی مرتبہ جرمانوں اور عدالتی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
امکانِ سزا
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر عدالت راشد نصیر کے مؤقف کو درست تسلیم کرتی ہے، تو عادل راجہ کو نہ صرف کثیر رقم ہرجانے کی ادائیگی کرنی پڑ سکتی ہے بلکہ ان کے خلاف دیگر قانونی کارروائیاں بھی عمل میں لائی جا سکتی ہیں۔
برطانوی عدالتی نظام میں ہتکِ عزت کے مقدمات کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، اور اگر عادل راجہ کو مجرم قرار دیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف ان کی شہرت کے لیے بڑا دھچکا ہوگا بلکہ دیگر افراد کے لیے بھی ایک اہم مثال بن سکتا ہے۔ عدالتی فیصلہ کسی بھی وقت سنایا جا سکتا ہے، جس کا ملکی و بین الاقوامی سطح پر اثر مرتب ہونے کا امکان ہے۔