سپریم کورٹ کی جج جسٹس مسرت ہلالی نے وفاقی آئینی عدالت کی جج بننے سے معذرت کر لی ہےجسٹس مسرت ہلالی نے صحت کے مسائل کے سبب آئینی عدالت کے عہدے کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اطلاعات کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے بعد جسٹس مسرت ہلالی کا نام ممکنہ جج کے طور پر زیر غور تھا تاہم انہوں نے آئینی عدالت میں شمولیت سے معذرت کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ وہ اپنے موجودہ عہدے پر رہنا پسند کرتی ہیں۔
گزشتہ دنوں صحت کے مسائل کے باعث ان کا بینچ بھی عارضی طور پر ڈی لسٹ کیا گیا تھا یاد رہے کہ گزشتہ روز سینیٹ اور قومی اسمبلی نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی تھی جس کے تحت وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں آیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی سفارش پر جسٹس امین الدین کو وفاقی آئینی عدالت کا پہلا چیف جسٹس مقرر کیا گیادوسری جانب ستائیسویں آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز، جسٹس منصور علی خان اور جسٹس اطہر من اللہ نے بطور جج سپریم کورٹ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔
دونوں ججز نے اپنے استعفے صدر پاکستان کو ارسال کیے ہیں ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور ججز کے تقرر کے معاملے نے عدلیہ میں نئی بحث کو جنم دیا ہے ۔
عدالتی سسٹم کے مستقبل میں اس کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں آئندہ دنوں میں وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی حتمی لسٹ اور دیگر تقرریوں کا اعلان متوقع ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تعیناتی نہ صرف قانونی نقطہ نظر سے اہم ہے بلکہ سیاسی اور سماجی تناظر میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ عدلیہ میں شفاف تقرریاں مستقبل میں عدلیہ کے فیصلوں پر عوام کے اعتماد کو مضبوط کریں گی اور عدالتی کارروائیوں کی رفتار میں بہتری لائیں گی۔
عوام اور سیاسی حلقے بھی اس عمل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ججز کی تقرری اور عدالت کی تشکیل ملکی سیاسی اور آئینی منظرنامے پر اثر انداز ہو سکتی ہےتجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے بعد عدالت کی کارروائیوں اور فیصلوں کی نوعیت میں بھی تبدیلی آئے گی۔