سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران 7 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ملزمان کی حوالگی ریکارڈ کا معاملہ ہے، 9 مئی کو آرٹیکل 245 نافذ نہیں تھا یہ بعد میں نافذ کیا گیا جبکہ بینچ ممبر جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں استفسار کیا کہ اگر فوج سول حکومت کے کہنے پر آئی ہو اور اس پر حملہ ہو جائے تو مقدمہ کہاں چلے گا؟
پیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں سے متعلق مقدے کی سماعت شروع ہوئی تو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سوال یہ نہیں کہ 105 ملزمان کی ملٹری ٹرائل کے لیے سلیکشن کیسے ہوئی، اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا قانون اجازت دیتا ہے؟
اس پر بینچ سربراہ جسٹس امین الدین نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی ریکارڈ کا معاملہ ہے، کیا آپ نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 94 کو چیلنج کیا ہے؟ جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی کے وقت جرم کا تعین نہیں ہوا تھا، سیکشن 94 کی لامحدود صوابدیدی اختیار کو بھی چیلنج کیا گیا ہے، ملزمان کی ملٹری حوالگی کا فیصلہ کرنے والے افسر کا اختیار لامحدود ہے۔
فیصل صدیقی نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ اس ملک میں وزیر اعظم کا اختیار بھی لامحدود نہیں، ملزمان حوالگی کے صوابدیدی اختیارات کے استعمال کا طریقہ کار ہونا چاہیے، اس پر بینچ ممبر جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ’کیا پولیس کی تفتیش کم اور ملٹری کی تیز تھی؟ کیا ملزمان کی حوالگی کے وقت ٹھوس مواد موجود تھا؟ ۔
جسٹس حسن اظہر رضوی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے فیصل صدیقی نے کہا کہ مواد کا ریکارڈ پر ہونا نہ ہونا مسئلہ نہیں، ساری جڑ ملزمان حوالگی کا لامحدود اختیار ہے، ایک کمانڈنگ افسر سیکشن 94 کے تحت حوالگی کی درخواست دیتا ہے۔
بحت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا انسداد دہشتگردی عدالت حوالگی کی درخواست مسترد کر سکتی ہے؟ جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت کو ملزمان کی حوالگی کی درخواست مسترد کرنے کا اختیار ہے۔
اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ دفاع تو ملزمان کی جانب سے انسداد دہشتگردی عدالت یا اپیل میں اپنایا جا سکتا تھا، جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزمان کو نوٹس بھی جاری نہیں کیا تھا، عدالت نے کمانڈنگ افسر کی درخواست آنے پر ازخود فیصلہ کر دیا۔
اس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سیکشن 94 کو اطلاق ان پر ہوگا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہے، انسداد دہشتگردی عدالت فیصلہ کے بعد ملزمان آرمی ایکٹ کے تابع ہو گئے، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ کورٹ مارشل کرنے کا فیصلہ ملزمان کی حوالگی سے قبل ہونا تھا، اگر کورٹ مارشل کا فیصلہ نہیں ہوا تو ملزمان کی حوالگی کیسے ہو سکتی ہے؟۔
فیصل صدیقی کے سوال پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ کیا کمانڈنگ افسر کی درخواست میں حوالگی کی وجوہات بتائی گئی؟ جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ کمانڈنگ افسر کی درخواست میں کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔
اس دوران بینچ ممبر جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ملزمان حوالگی کی درخواست میں وجوہات بتائی گئیں، درخواست میں بتایا گیا کہ ملزمان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے جرائم ہیں، اس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 175 کے بعد ایگزیکٹو کی صوابدید ختم نہیں ہوگئی؟ آرٹیکل 175 کے بعد تو صوابدید والا سوال ختم ہو جاتا ہے۔
اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ میری دلیل مان لی جائے تو قانون نہیں ٹرائل کالعدم ہوں گے، ٹرائل کالعدم ہو تو جن مقدمات میں سزائیں باقی ہیں وہ انسداد دہشتگردی عدالت ٹرانسفر ہو جائیں گی، جن مقدمات میں سزاؤں پر عمل ہو چکا وہ معاملہ ختم تصور ہوگا۔
اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ مقدمات فوجی عدالت سے عام میں منتقل ہو تو ٹرائل کہاں سے شروع ہوگا؟ کیا دوبارہ ٹرائل ملٹری ٹرائل کے ریکارڈ شواہد سے شروع ہوگا؟ اس پر جسٹس امین الدین نے بھی سوال کیا کہ ختم اور حتمی قرار شدہ معاملے کی دلیل سے ملٹری ٹرائل کی توثیق نہیں ہو جائے گی؟
فیصل صدیقی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عدالت شہریوں کے تحفظ کیساتھ قانون ختم نہ کرکے حکومتی مفادات کا بھی خیال رکھتی ہے، عدالت ایسا اختیار استعمال کرے جو اسے نہ ہو تو اس کے فیصلے قائم نہیں رہ سکتے، چند روز پہلے اسی آئینی بینچ نے ٹیکس کیس میں 2 آرڈرز اسی بنیاد پر کالعدم قرار دیے تھے۔
اس دوران جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ دائرہ اختیار پر اعتراض بروقت نہ کیا جائے تو کیا اثرات ہوں گے؟ جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ دائرہ اختیار عدالت نے خود دیکھنا ہوتا ہے کسی کے اعتراض کی محتاجی نہیں ہوتی۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالتی دائرہ اختیار پر اعتراض کسی بھی وقت اٹھایا جا سکتا ہے، اس کے بعد فیصل صدیقی نے کہا کہ ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ ہائیکورٹ سے کیوں رجوع نہیں کیا گیا تھا، آرٹیکل 245 نافذ ہو تو ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کیا جا سکتا۔
اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ 9 مئی کو تو آرٹیکل 245 نافذ نہیں تھا، یہ تو بعد میں نافذ کیا گیا، اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ جب درخواستیں دائر ہوئیں تو آرٹیکل 245 نافذ ہوچکا تھا، جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے پھر سوال اٹھایا کہ اگر فوج سول حکومت کے کہنے پر آئی ہو اور اس پر حملہ ہو جائے تو مقدمہ کہاں چلے گا؟ جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر فوجی قافلے پر حملہ ہو تو ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں چلے گا۔ اس کے بعد مقدمے کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی گئی۔