امریکا کی وفاقی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو ’یو ایس ایڈ‘ بند کرنے سے روک دیا

امریکا کی وفاقی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو ’یو ایس ایڈ‘ بند کرنے سے روک دیا

امریکا کی ایک وفاقی عدالت کے جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کو بند کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے سے روک دیا ہے۔

جج تھیوڈور چوانگ نے منگل کو اپنے فیصلے میں کہا کہ ٹرمپ کے اتحادی ایلون مسک کے ڈپارٹمنٹ فار گورنمنٹ ایفیشینسی (ڈی او جی ای) کی جانب سے ’یو ایس ایڈ‘ کو بند کرنے کی کوششیں ممکنہ طور پر ’متعدد طریقوں سے‘ امریکی آئین کی خلاف ورزی ہیں۔

تھیوڈور چوانگ نے ڈپارٹمنٹ فار گورنمنٹ ایفیشینسی کو حکم دیا کہ وہ ملازمین کے لیے یو ایس ایڈ کے کمپیوٹر اور ادائیگی کے نظام تک رسائی بحال کرے، جن میں وہ ملازمین بھی شامل ہیں جنہیں چھٹیوں پر بھیج دیا گیا تھا۔

جج نے یو ایس ایڈ کے ملازمین کی برطرفی روکنے کا بھی حکم دیا لیکن چھٹی پر بھیجے گئے ملازمین کو بحال کرنے کا حکم نہیں دیا۔ یہ فیصلہ یو ایس ایڈ کے 26 نامعلوم ملازمین کی جانب سے دائر کیے گئے ایک مقدمے میں سامنے آیا ہے جنہوں نے عدالت میں جمع کرائی گئی درخواستوں میں الزام عائد کیا تھا کہ ایلون مسک امریکی حکومت کے محکموں کو ختم کرنے میں لاپرواہی پر عمل پیرا ہیں۔

ملازمین کے وکلا نے 13 فروری کو دائر کی گئی ایک شکایت میں دلیل دی کہ ایلون مسک کا اختیار غیر قانونی ہے  کیونکہ انہیں سرکاری عہدے کے لیے باضابطہ طور پر نامزد نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی امریکی سینیٹ نے اس کی توثیق کی ہے اس لیے ایلون مسک کے ادارے کی سرگرمیوں کو فوری روکا جائے۔

جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس کا دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد تمام امریکی غیر ملکی امداد کو 90 دنوں کے لیے منجمد کرنے کا حکم دینے کے فوری بعد ڈی او جی ای نے یو ایس ایڈ کو نشانہ بنایا تھا۔

ایلون مسک اور ڈی او جی ای نے عدالتی دستاویزات میں دلیل دی کہ ایلون مسک کا کردار صرف مشاورتی ہے۔ لیکن جج چوانگ نے فیصلہ سنایا کہ ایلون مسک اور ڈی او جی ای نے یو ایس ایڈ پر کنٹرول حاصل کیا اور ایسا کرتے ہوئے انہوں نے ’ممکنہ طور پر متعدد طریقوں سے امریکی آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور ان اقدامات نے نہ صرف مدعی بلکہ عوامی مفاد کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ اس فیصلے کا یو ایس ایڈ کی کارروائیوں پر کیا اثر پڑے گا، انتظامیہ کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ اس کی 80 فیصد سے زیادہ سرگرمیاں روک دی گئی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے منگل کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، وائٹ ہاؤس کی ترجمان اینا کیلی نے اس فیصلے کو ’انصاف کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’جج صدر ٹرمپ کو ان کے ایجنڈے پر عمل درآمد سے روکنے کی کوششوں میں امریکی عوام کی مرضی کو پامال کر رہے ہیں‘۔

یو ایس ایڈ ملازمین کی نمائندگی کرنے والے اسٹیٹ ڈیموکریسی ڈیفینڈرز فنڈ کے ایگزیکٹو چیئرمین نارم آئزن نے اس فیصلے کو ایلون مسک اور ڈی او جی ای کی غیر قانونی حیثیت کو پس پشت ڈالنے میں ایک سنگ میل قرار دیا۔

آئزن نے کہاکہ وہ ہتھکڑی کے بجائے زنجیروں سے سرجری کر رہے ہیں، جس سے نہ صرف یو ایس ایڈ کے لوگوں کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ امریکیوں کی اکثریت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے جو ہماری حکومت کے استحکام پر بھروسہ کرتے ہیں۔

یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے تازہ ترین قانونی دھچکا ہے۔ پیر کے روز ایک اور وفاقی جج نے وینزویلا گینگ کے مبینہ ارکان کی ملک بدری روکنے کا حکم دیا تھا۔ اس کیس میں جج نے وکلا سے سوال کیا تھا کہ جب ملک بدری کی متعدد پروازیں فضامیں تھیں تو ان کے حکم پر فوری طور پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا گیا اور اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے اس کیس میں جج کے مواخذے کا مطالبہ کیا تھا جس پر امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے انتظامیہ کی سرزنش کی گئی تھی۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *