سپیکر پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن کے 26 ارکان کی معطلی کے معاملے پر رولنگ دے دی۔ ارکان کی بحالی کے بعد سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے ایوان میں حتمی فیصلہ سنایا، جو رولنگ کی صورت میں جاری کیا گیا۔
سپیکر ملک محمد احمد خان نے اپنی رولنگ میں کہا کہ کسی عوامی نمائندے کو نا اہل کرنا صرف ایک آواز کو دبانا نہیں بلکہ عوام کو ان کے حق نمائندگی سے محروم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ اور وزیر پارلیمانی امور پنجاب سمیت متعدد معزز ارکان کی جانب سے پیش کی گئی درخواستوں کا تعلق جدید جمہوریت کی بنیادوں سے ہے۔
سپیکر نے کہا کہ کیا منتخب عوامی نمائندوں کو اسپیکر یا الیکشن کمیشن نا اہل کر سکتے ہیں؟ میرا جواب ہے “نہیں”۔ درخواست گزاروں نے آئینی حلف سمیت سنگین قانونی اور آئینی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے ہیں، لیکن ان خلاف ورزیوں کو پہلے کسی مجاز عدالت یا ٹربیونل میں ثابت کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ آیا آئین کے آرٹیکل 63 (2) کے تحت نا اہلی کا معاملہ پیدا ہوتا ہے اور اسے الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے یا نہیں۔
ملک محمد احمد خان نے مزید کہا کہ درخواست گزاروں کا پانامہ پیپرز کیس اور ہائی کورٹس و سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار (آرٹیکل 199 اور 184 (3)) کی عدالتی نظائر پر انحصار آئینی اور جمہوری وجوہات کی بنا پر مسترد کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ منتخب ایوان صرف قانون سازی کا ادارہ نہیں بلکہ عوام کی آواز اور ان کے اعتماد کا مظہر ہوتا ہے۔ اس آواز کو عدالتی فیصلے کے بغیر خاموش کرنا عوامی حق نمائندگی کی توہین ہے۔ تاہم درخواست گزار مجاز عدالت سے فیصلہ لینے کے بعد دوبارہ اسپیکر سے رجوع کر سکتے ہیں۔
رولنگ میں کہا گیا کہ یہ معاملہ ایوان کے بجٹ اجلاس میں اپوزیشن ارکان کی جانب سے جان بوجھ کر کیے گئے پرتشدد اور منظم خلل سے متعلق ہے۔ اس حوالے سے متعدد ارکان نے چار الگ الگ درخواستیں دائر کیں، جن میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ کارروائی میں خلل ڈالنا اور اسپیکر کی رولنگ کی خلاف ورزی کرنا آئینی حلف کی توہین اور آئین کے آرٹیکل 62 میں درج اہلیت کے منافی ہے۔
سپیکر نے کہا کہ درخواست گزاروں کے اٹھائے گئے مسائل آئینی اور سیاسی طور پر انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، تاہم درخواست گزاروں نے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر انحصار کیا ہے۔