امریکا اور چین حکام نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ایک فریم ورک معاہدہ کر لیا ہے جس کے تحت شارٹ ویڈیو ایپ ٹک ٹاک کی ملکیت ایک امریکی کمپنی کو منتقل کی جائے گی، جس سے امریکا میں 17 کروڑ صارفین والی ایپ پر پابندی کے خطرے سے بچا جا سکتا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اس معاہدے کی تصدیق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان جمعہ کو ٹیلی فونک کال میں متوقع ہے۔
یہ معاہدہ امریکااور چین کے درمیان کشیدہ تعلقات کے دوران ایک نادر پیش رفت ہے، جو طویل تجارتی جنگ اور ٹیکنالوجی کے تنازعات سے متاثر ہیں۔ امریکی وزیر خزانہ، اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ 17 ستمبر کی ڈیڈ لائن نے چینی مذاکرات کاروں کو معاہدے پر راضی ہونے پر مجبور کیا۔ ڈیڈ لائن میں 90 دن کی توسیع بھی ممکن ہے تاکہ معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکے۔
اگرچہ معاہدے کی تفصیلات ابھی واضح نہیں، بیسنٹ نے زور دیا کہ امریکاکی ترجیح قومی سلامتی ہے، جبکہ چینی حکام ٹک ٹاک کے ثقافتی پہلو محفوظ رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں، جنہیں وہ چین کی ‘نرم طاقت’ کا حصہ سمجھتے ہیں۔
اس معاہدے کے لیے ممکنہ طور پر امریکی کانگریس کی منظوری بھی درکار ہوگی، جس نے 2024 میں ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت چینی کنٹرول پر پابندی لگائی گئی تھی۔
ٹرمپ، جو خود بھی ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں اور ان کے 1.5 کروڑ فالوورز ہیں، نے ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا کہ ‘ہمارے ملک کے نوجوانوں کے لیے ایک کمپنی بچ گئی، وہ بہت خوش ہوں گے، میں جمعہ کو صدر شی سے بات کروں گا۔ ہمارا تعلق اب بھی بہت مضبوط ہے‘۔
چینی حکام نے معاہدے کو ’بنیادی فریم ورک اتفاق‘ قرار دیا اور امریکاکی جانب سے چینی ٹیک کمپنیوں پر پابندیوں کو ’یک طرفہ غنڈہ گردی‘ کہا۔ میڈرڈ میں ہونے والے مذاکرات، جو گزشتہ 4 ماہ میں چوتھی بار ہوئے، میں تجارتی تنازعات اور ٹک ٹاک کی ملکیت جیسے حساس معاملات پر بات چیت ہوئی۔
ادھر چین نے امریکی چپ ساز کمپنی ’انوڈیا‘ کے خلاف اجارہ داری کے قوانین کی خلاف ورزی کی تحقیقات کا اعلان بھی کیا، جسے واشنگٹن کی پابندیوں کے جواب میں انتقامی کارروائی سمجھا جا رہا ہے۔
ٹرمپ اور شی کے درمیان جمعہ کی متوقع کال میں ممکنہ سربراہی اجلاس پر بھی بات ہو سکتی ہے، جس کے لیے امریکی مذاکرات کاروں کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک معاہدہ بنیادی شرط تھا۔