وزیرِ اعظم سر کیئر اسٹارمر باضابطہ طور پر اعلان کرنے والے ہیں کہ برطانیہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا، جو گزشتہ کئی دہائیوں میں برطانوی خارجہ پالیسی میں سب سے بڑی تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔
یہ فیصلہ جولائی میں وزیرِ اعظم کی جانب سے دی گئی اُس وارننگ کے بعد سامنے آ رہا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ستمبر تک اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی اور پائیدار امن منصوبے پر اتفاق نہ کیا تو برطانیہ فلسطین کو تسلیم کر لے گا اور یہ شرائط پوری نہیں ہوئیں۔
برطانیہ کی پالیسی سے انحراف
ماضی میں مسلسل آنے والی برطانوی حکومتیں یہ مؤقف اپناتی رہی ہیں کہ فلسطینی ریاست کو صرف اُس وقت تسلیم کیا جانا چاہیے جب اسرائیل کے ساتھ 2 ریاستی مذاکراتی عمل کے ذریعے معاہدہ ہو۔ تاہم، سر کیئر کی حکومت اب کہہ رہی ہے کہ برطانیہ پر ایک اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ 2 ریاستی حل کی امید کو زندہ رکھنے کے لیے فوری اقدام کرے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق غزہ میں انسانی بحران، جس میں بھوک، بے دخلی اور حالیہ اسرائیلی زمینی حملے جیسے مناظر شامل ہیں، جنہیں ایک اقوامِ متحدہ کے اہلکار نے ’تباہ کن‘قرار دیا، نے حکومت کو اس قدم کے لیے مجبور کر دیا۔
اسرائیل اور اندرونِ ملک تنقید
اس فیصلے کی شدید مذمت اسرائیلی حکومت اور ان خاندانوں نے کی ہے جن کے رشتہ دار ابھی تک حماس کی قید میں ہیں۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اس فیصلے کو ’دہشتگردی کا انعام‘ قرار دیا، جبکہ 48 مغویوں کے اہلِ خانہ نے ایک کھلے خط میں کہا کہ اس اعلان نے ان کی رہائی کی کوششوں کو پیچیدہ بنا دیا ہے، جن میں سے 20 کے زندہ ہونے کا یقین ہے۔
برطانیہ میں کمی بدینوک نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی، اور ٹیلی گراف میں لکھا کہ بغیر مغویوں کی رہائی کے تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ چیف ربی سر ایفریم میرویس نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ رک جائے اور کہا کہ یہ اقدام جمہوری طرزِ حکمرانی یا امن کے عزم سے مشروط نہیں لگتا۔
بستیوں کی توسیع، نسل کشی کے الزامات اور 2 ریاستی حل کا خطرہ
برطانیہ میں انصاف کے سیکریٹری ڈیوڈ لامی، جنہوں نے جولائی میں بطور وزیرِ خارجہ اس پالیسی کی بنیاد رکھی تھی، نے کہا کہ اسرائیل کی بستیوں کی تیز رفتار توسیع، خاص طور پر ای ون منصوبہ، ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست کو ناممکن بنا سکتی ہے۔
ڈیوڈ لامی نے یہ بھی کہا کہ تسلیم کرنا اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد اور تعمیراتی سرگرمیوں کا ردِ عمل ہے جو 2 ریاستی حل کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ حکام نے اس ہفتے جاری ہونے والی اقوامِ متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا جس میں اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کا الزام لگایا گیا ہے، جسے اسرائیل نے ’گمراہ کن اور جھوٹا‘ قرار دیا ہے۔
فلسطینی اور عالمی حمایت میں اضافہ
فلسطینی صدر محمود عباس نے اس فیصلے کا خیر مقدم لندن کے حالیہ دورے میں کیا، جہاں انہوں نے اور اسٹارمر نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حماس کا آئندہ فلسطینی حکومت میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔
برطانیہ اب ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو رہا ہے جو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی تیاری میں ہیں، جن میں فرانس، پرتگال، کینیڈا اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ گزشتہ سال اسپین، آئرلینڈ اور ناروے پہلے ہی یہ اقدام کر چکے ہیں۔ اس وقت اقوامِ متحدہ کے تقریباً 75 فیصد رکن ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں، اگرچہ فلسطین کی سرحدیں، دارالحکومت اور فوج واضح طور پر موجود نہیں، جس سے یہ تسلیم زیادہ علامتی حیثیت رکھتا ہے۔
امریکی اور بین الاقوامی ردعمل
برطانیہ کے حالیہ سرکاری دورے کے دوران، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور اسرائیل کے ساتھ مل کر اس وقت کو’انتہائی غیر موزوں‘ قرار دیا۔ برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی حماس کے خلاف نئی پابندیاں نافذ کریں گے، تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ فلسطین کی تسلیم کا مطلب حماس کی حمایت نہیں۔
چیئکرز میں صدر ٹرمپ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران، اسٹارمر نے کہا کہ ’ یہ اقدام فلسطینی عوام کے حقوق کو تسلیم کرنے کے لیے ہے۔ حماس کا آئندہ فلسطینی ریاست میں کوئی کردار نہیں ہوگا‘۔
لیبر پارٹی کا دباؤ اور سیاسی سیاق و سباق
یہ فیصلہ ایسے وقت پر آیا ہے جب لیبر پارٹی کے اندر اور باہر سے بڑھتا ہوا دباؤ موجود تھا۔ پارٹی کی بائیں بازو کی اکثریت طویل عرصے سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حامی رہی ہے۔ جولائی میں آدھے سے زیادہ لیبر ایم پیز نے ایک خط پر دستخط کیے تھے، جس میں حکومت سے فوری اقدام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
غزہ پر عالمی تنقید اور اندرونِ ملک عوامی دباؤ کے پیشِ نظر، اسٹارمر کا یہ فیصلہ برطانیہ کو اُن ممالک کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے جو 2 ریاستی حل کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، چاہے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے سخت مخالفت ہی کیوں نہ ہو۔