آزاد کشمیر میں جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال نے پورے خطے کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ احتجاج کے دوران موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی مکمل بندش نے صورتحال کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے، جس سے مقامی شہریوں اور صحافیوں کی رابطے کی سہولیات متاثر ہوئیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اس احتجاج کے فوری خاتمے کے لیے مذاکرات کی تجویز دی ہے اور عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان سے بات چیت کے ذریعے مسئلے حل کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات مشتاق احمد منہاس کے مطابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے 98 فیصد مطالبات پر اتفاق ہو چکا ہے اور وہ خود جلد پاکستان پہنچ کر معاملہ سنبھالیں گے۔ تاہم وزیراعظم کی اس اپیل کے باوجود احتجاج جاری ہے اور عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنے مطالبات میں سختی برقرار رکھی ہے۔
حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ سروس کی بندش وفاقی وزارت داخلہ کی ہدایت پر عمل میں لائی گئی، جسے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے سرکردہ رہنما شوکت نواز میر نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ شوکت نواز میر نے کہا کہ انٹرنیٹ کی بندش نے کشمیریوں کو ’بند گلی‘ میں دھکیل دیا ہے جہاں وہ اپنی بات پہنچانے سے قاصر ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ انٹرنیٹ بحال کیا جائے تاکہ احتجاج کے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جا سکے۔
مظفرآباد، باغ اور راولاکوٹ سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور مشعل بردار جلوس بھی نکالے گئے، جس سے علاقہ مزید پر تشدد ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ احتجاج کے 2 دن قبل اسلام آباد سے سیکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد کشمیر روانہ کی گئی تھی تاکہ امن و امان برقرار رکھا جا سکے۔
دوسری جانب، آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے عوامی ایکشن کمیٹی کی کال کو سپورٹ کرنے سے گریز کیا ہے اور اپنے کارکنوں کو مظاہروں میں شرکت سے روک دیا ہے۔ کشمیر کی حکومت کی قیادت میں مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں مشترکہ جلسے کر رہی ہیں، جبکہ جماعت اسلامی نے احتجاج سے خود کو علیحدہ رکھا ہے اور اپنے الگ مطالبات پر زور دیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ ہڑتال ایک حساس سیاسی دور میں سامنے آئی ہے جب مقبوضہ کشمیر خصوصاً جموں کے علاقے لداخ میں بھی پرتشدد مظاہرے جاری ہیں، جن میں کئی افراد مارے جا چکے ہیں۔ اس سیاسی خلفشار کے بیچ آزاد کشمیر کی صورتحال مزید نازک ہوتی جا رہی ہے، جہاں عوامی مطالبات اور سیاسی مفادات کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔
اس وقت کشمیری عوام اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے احتجاج پر بضد ہیں، جبکہ حکومت مذاکرات اور حکومتی کنٹرول کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ انٹرنیٹ کی بندش اور شٹر ڈاؤن نے صورتحال کو ایسے پیچیدہ موڑ پر پہنچا دیا ہے جہاں امن کی بحالی کے لیے جلد اور مؤثر مذاکرات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔