محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد

محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کر دیا گیا۔

اپوزیشن کی جانب سے سیکرٹری قومی اسمبلی کے آفس میں درخواست باضابطہ طور پر جمع کرا دی گئی، چیف وہپ عامر ڈوگر، اسد قیصر اور دیگر رہنماؤں نے درخواست جمع کرائی۔

اپوزیشن کے 74 ارکان نے محمود خان اچکزئی کو بطور اپوزیشن لیڈر نامزد کیا۔

پی ٹی آئی کے 3 اراکین علی افضل ساہی، عمر فاروق اور صاحبزادہ محبوب سلطان ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے درخواست پر دستخط نہ کر سکے۔

سپیشل سیکرٹری قومی اسمبلی نے درخواست موصول کر لی جبکہ ایڈوائزر آفس نے درخواست کو ڈائری نمبر لگا دیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے 9 مئی کے مقدمات میں سزا اور نااہلی کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان کی جگہ اپنی پارٹی کے کسی رکن کے بجائے قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو نامزد کیا۔

محمود خان اچکزئی کی سیاست پر ایک نظر

محمود خان اچکزئی گذشتہ پانچ دہائیوں سے سیاست میں سرگرم ہیں،  وہ 12 دسمبر 1948 کو ضلع قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان میں معروف قوم پرست رہنما عبدالصمد خان اچکزئی کے گھر پیدا ہوئے۔ انہوں نے پشاور سے میکنیکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔

ان کے والد نے انگریز دور اور قیام پاکستان کے بعد سیاسی جدوجہد کے دوران طویل عرصہ جیل کاٹی۔ وہ ایوب خان کے تقریباً پورے دور میں جیل میں قید رہے۔

عبدالصمد خان اچکزئی نے نیشنل عوامی پارٹی سے اختلافات کے بعد پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے نئی جماعت کی بنیاد رکھی۔ والد کے قتل کے بعد 1973 میں نوجوانی میں ہی محمود خان اچکزئی نے پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔

مزید پڑھیں:قطر مذاکرات : پاکستان اور افغانستان جنگ بندی پر راضی ہوگئے

وہ ایک بار صوبائی اور پانچ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔اُن کے بھائی محمد خان اچکزئی بلوچستان کے گورنر رہ چکے ہیں جبکہ چھوٹے بھائی حامد خان اچکزئی قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن رہے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں اور خیبر پشتونخوا کے کچھ علاقوں میں اثر رکھتی ہے۔ محمود خان اچکزئی ضیا الحق کے دور میں افغانستان میں کئی برسوں تک جلاوطن بھی رہے،  وہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے مضبوط حامی سمجھے جاتے ہیں۔

سنہ 1990 کی دہائی میں وہ نواز شریف کے سخت مخالف تھے لیکن بعد میں اُن کے اتحادی بن گئے اور فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی۔ 2013 کے انتخابات کے بعد وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ مرکز اور بلوچستان کی حکومتوں میں اتحادی بھی رہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی ماضی میں بھی عمران خان کے اتحادی رہے،  دونوں نے اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے 2008 کے عام انتخابات کا ایک ساتھ بائیکاٹ کیا ، پھر مسلم لیگ ن کی حکومت کا ساتھ دینے پرعمران خان، محمود اچکزئی کے ناقد بن گئے۔

محمود خان اچکزئی 2022 تک موجودہ حکمران جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ اپوزیشن اتحاد میں عمران خان کی حکومت کے خلاف سیاسی جدوجہد کرتے رہے، تاہم 2022 میں  ایک بار پھر اتحادی بن گئے۔

محمود اچکزئی اگرچہ پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں مگر ان کی جماعت کے پاس قومی اسمبلی میں صرف ایک نشست ہے۔اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں ارکان کی تعداد 80 سے زائد ہیں۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *