دنیا تیزی سے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) کی طرف منتقل ہو رہی ہے، اور آج شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں اے آئی ٹیکنالوجی کا استعمال نہ کیا جا رہا ہو۔
ترقی یافتہ ممالک نے نہ صرف اس ٹیکنالوجی کو اپنایا ہے بلکہ اسے اپنی معیشت، تعلیم اور روزمرہ زندگی کا اہم حصہ بنا لیا ہے۔ پاکستان میں بھی مصنوعی ذہانت کے مختلف شعبوں میں استعمال کا آغاز ہو چکا ہے، اور متعدد اے آئی پر مبنی ایپس عوام میں مقبول ہو رہی ہیں۔
تاہم مائیکروسافٹ کے اے آئی اکنامی انسٹیٹیوٹ کی نئی رپورٹ “اے آئی ڈیفیوشن رپورٹ 2025” کے مطابق پاکستان اس دوڑ میں دیگر ممالک سے کافی پیچھے ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 15 فیصد سے بھی کم حصہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹولز استعمال کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، سنگاپور اور ناروے نے اے آئی ٹیکنالوجی کے عملی استعمال میں نمایاں برتری حاصل کی ہے۔ ان ممالک میں 50 فیصد سے زائد افراد روزمرہ زندگی میں اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں، جس سے یہ ممالک عالمی درجہ بندی میں سب سے آگے ہیں۔
مسلم ممالک میں متحدہ عرب امارات مصنوعی ذہانت کے استعمال میں سب سے آگے ہے، جبکہ سعودی عرب، قطر، ملائیشیا اور انڈونیشیا بھی اے آئی تعلیم، ڈیٹا سینٹرز اور حکومتی پروگرامز میں تیزی سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل جدید اے آئی ماڈلز تیار کرنے والے سات بڑے ممالک میں شامل ہے، جبکہ امریکہ، چین، جنوبی کوریا، فرانس، برطانیہ اور کینیڈا اس فہرست میں اس سے بھی آگے ہیں۔
پاکستان میں اے آئی کے استعمال میں سست رفتاری کی بڑی وجوہات انٹرنیٹ کی محدود دستیابی، ڈیجیٹل مہارتوں کی کمی اور مقامی زبانوں میں اے آئی ٹولز کی غیر موجودگی بتائی گئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق جن ممالک میں عوام اپنی مادری زبان مثلاً انگریزی یا عربی میں اے آئی استعمال کر سکتے ہیں، وہاں اس ٹیکنالوجی کی قبولیت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان مصنوعی ذہانت کے بڑھتے فرق کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ تمام اقوام اس جدید ٹیکنالوجی کے فوائد سے یکساں طور پر مستفید ہو سکیں۔