وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اگر افغانستان میں کسی قسم کی کارروائی کرے گا تو وہ مکمل طور پر واشگاف، شفاف اور مخصوص اہداف تک محدود ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فورسز انتہائی منظم اور ڈسپلن کی پابند ہیں اور وہ شہریوں کو نشانہ بنانا اپنی پالیسی کا حصہ نہیں بناتیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ خطے میں امن کے لیے پاکستان کے دوست ممالک بھی جلد کردارادا کریں گے، کیونکہ امن سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورا خطہ فائدہ اٹھائے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ دہشتگردی کے مراکز کے خاتمے سے خطے میں روزگار اور معاشی ترقی کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
خواجہ آصف نے افغان طالبان کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ طالبان ایک ’مفاد پرست گروہ‘ ہیں جن کی باتوں کو سنجیدگی سے لینا ممکن نہیں۔ ان کے مطابق طالبان پر اعتماد کرنا ’سب سے بڑی حماقت‘ ہوگی کیونکہ ان کے طرزِ عمل میں کوئی اصول یا ضابطہ کار نہیں پایا جاتا۔
وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ طالبان کے دعوے اور شریعت کے نام پر کیا جانے والا طرزِ حکمرانی کسی مذہب یا مہذب معاشرے میں قابلِ قبول نہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’دنیا کے کس مذہب و معاشرے میں یہ اجازت ہے کہ آپ کسی سرزمین پر رہتے ہوئے وہاں خونریزی کو معمول بنا دیں؟ طالبان آخر کس شریعت کی بات کر رہے ہیں؟‘-
افغانستان کے بھارت سے تعلقات کے معاملے پر خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ افغانستان اگر تجارت یا سفارتی سطح پر کوئی متبادل راستہ یا شراکت دار اختیار کرنا چاہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کو اپنا راستہ چننے کا حق حاصل ہے، تاہم خطے کا امن سب ممالک کے مفاد میں ہے اور اس کے لیے مشترکہ کوششیں ناگزیر ہیں۔
وزیر دفاع نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگر طالبان اپنی پالیسیوں پر قائم رہے تو وہ عالمی سطح پر مزید تنہا ہوتے جائیں گے، جس کا نقصان افغان عوام کو بھی اٹھانا پڑے گا۔ ان کے مطابق افغانستان میں جاری عدم استحکام نہ صرف علاقائی تعاون کے راستے میں رکاوٹ ہے بلکہ اس سے سرحدی سلامتی کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔