کردستان ورکرز پارٹی کا ترکیہ کے خلاف مسلح جدوجہد ختم کرنے کا اعلان

کردستان ورکرز پارٹی کا ترکیہ کے خلاف مسلح جدوجہد ختم کرنے کا اعلان

کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے)  ایک کرد عسکریت پسند گروپ جو تقریباً 5 دہائیوں سے ترک ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کر رہا ہے، نے کہا ہے کہ وہ باضابطہ طور پر اپنے تنظیمی ڈھانچے کو تحلیل کرنے اور اپنی مسلح جدوجہد ختم کرنے جا رہا ہے۔

کرد نیوز ایجنسی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ فیصلہ گروپ کے بارہویں کانگریس اجلاس کے دوران کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پی کے کے کی 12 ویں کانگریس اجلاس میں پی کے کے تنظیمی ڈھانچے کو تحلیل کرنے اور مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گروپ نے مزید کہا کہ گروپ کی تحلیل کا باضابطہ اعلان جیل میں بند بانی رہنما عبداللہ اوکلان کریں گے۔

عبداللہ اوکلان کی جانب سے 1978 میں قائم کی گئی پی کے کے مشرقی ترکیہ میں سب سے طویل عرصے سے جاری بغاوت میں سے ایک کا مرکز رہی ہے، جو ابتدائی طور پر جنوب مشرقی ترکیہ میں ایک آزاد کرد ریاست کا مطالبہ کرتے آ رہی ہے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس گروپ نے ترکیہ کے اندر زیادہ سے زیادہ خودمختاری اور ثقافتی حقوق کا مطالبہ کرنے کے لیے اپنے مطالبات پر نظر ثانی کی ہے۔

اس تنازع ، جس میں ہزاروں ترک سیکیورٹی اہلکار اور پی کے کے جنگجو مارے گئے ہیں اور ساتھ ہی بڑی تعداد میں شہری بھی مارے گئے ہیں۔ پی کے کے کو ترکیہ، امریکا اور یورپی یونین نے دہشتگرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

مارچ کے اوائل میں ایک اہم پیش رفت میں ، گروپ نے فوری جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جب عبداللہ اوکلان نے مبینہ طور پر اپنے جنگجوؤں سے ہتھیار ڈالنے اور تنظیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پیر کے روز جاری ہونے والا اعلامیہ اس عمل کا اختتام معلوم ہوتا ہے۔

ترکیہ حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، ترکیہ حکومت نے مسلح گروپ کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے تھا کہ جب تک گروپ مکمل تخفیف اسلحہ اور ہتھیار نہیں ڈالتا اس وقت تک کوئی مطالبہ قبول نہیں کیا جائے گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ترکیہ کے دہائیوں پرانے کرد سوال میں ایک نئے باب کا آغاز ہو سکتا ہے، تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ انقرہ کیا ردعمل ظاہر کرتا ہے اور کیا پی کے کے کی تحلیل عملی طور پر برقرار رہے گی۔

اوکلان 1999 سے کینیا میں ترک انٹیلی جنس کے خفیہ آپریشن میں پکڑے جانے کے بعد سے ترکیہ کی ایک جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اپنی قید کے باوجود ، انہوں نے پی کے سیاسی فیصلوں پر کافی اثر و رسوخ برقرار رکھا ہوا ہے۔

اگر کرد مسلح گروپ بغاوت کو ترک کرتا ہے تو یہ خطے کی سب سے نمایاں مسلح کرد تحریک کے خاتمے میں اہم پیش رفت ہوگی، جس کے نہ صرف ترکیہ بلکہ شام، عراق اور ایران میں کرد دھڑوں پر بھی ممکنہ اثرات مرتب ہوں گے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *