ویب ڈیسک۔ مئی 2025 میں ہونے والی مختصر مگر فیصلہ کن جھڑپوں کے بعد جنوبی ایشیا کے طاقت کے توازن میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ ایک وقت میں ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت کا دعویٰ کرنے والا بھارت آج سفارتی طور پر شرمندگی کا شکار ہے، جب کہ پاکستان نے اس بحران کو فوجی، سفارتی اور بیانیاتی سطح پر اہم کامیابیوں میں بدل دیا ہے۔
آزاد ریسرچ ڈیسک کی تحقیق کے مطابق بھارت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کی بنیادی وجہ اس کی خود ساختہ غلطیاں ہیں۔ پہلگام واقعہ کے بعد بھارت کی جانب پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے کے بعد فضائی حملے غیر محتاط اور ناقص جواز پر مبنی تھے۔ ان حملوں کے لیے پاکستان کے خلاف کوئی حتمی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، جس کے باعث عالمی سطح پر بھارت کو حمایت کے بجائے مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔ واشنگٹن سے لے کر ریاض تک کئی بڑے دارالحکومتوں نے بھارت سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی گئی اور نجی طور پر نئی دہلی کی ساکھ پر سوالات اٹھائے۔
اس سفارتی نقصان کے ساتھ ساتھ بھارت کو عسکری سطح پر بھی شدید خفت اٹھانی پڑی جب اس کے جدید رافیل لڑاکا طیارے پاکستان ایئر فورس نے مار گرائے۔ یہ واقعہ بھارت کی فضائی برتری کے بیانیے کے لیے ایک سخت دھچکا تھا۔
آزاد ریسرچ ڈیسک کی تحقیق کے مطابق بھارت کے اندر، سیاسی سطح پر جارحانہ بیانیہ رکھنے والے حلقے، جو ماضی میں مودی حکومت کی زور دار سفارت کاری کا ستون سمجھے جاتے تھے، آج عوامی اعتماد کھوتے نظر آ رہے ہیں۔
سب سے بڑی ناکامی بھارت کے لیے کشمیر پر بیانیہ کنٹرول کا کھو جانا ہے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کے بجائے بھارت کی جارحیت نے عالمی برادری میں ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی آوازیں بلند کر دیں—ایک ایسا سفارتی محاذ جسے بھارت برسوں سے دفن کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
ریسرچ کے مطابق اس کے برعکس، پاکستان کی سول و عسکری قیادت نے نہایت منظم اور مربوط انداز میں ردعمل دیا جس نے نہ صرف صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکا بلکہ عالمی سطح پر تحسین بھی حاصل کی۔ پاکستان نے بیجنگ، ریاض، تہران، ماسکو، انقرہ، لندن، برسلز اور واشنگٹن میں فوری سفارتی رابطے کر کے بحران کو بھارتی جارحیت کے طور پر پیش کیا اور اسے علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔
امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے “موزوں ردعمل” کی غیر معمولی تعریف نے نئی دہلی کے پالیسی سازوں کو حیران کر دیا، جو واشنگٹن کی غیر مشروط حمایت پر انحصار کر رہے تھے۔ اس بحران سے پاکستان نے نہ صرف چین کے ساتھ سیکیورٹی روابط مضبوط کیے بلکہ امریکہ کے ساتھ اعلیٰ سطحی سفارتی بات چیت کی راہیں بھی دوبارہ کھول لیں، جس سے پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت میں اضافہ ہوا۔
آزاد ریسرچ ڈیسک کی تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر، مئی 2025 کے بعد بھارت کی خارجہ پالیسی، جو طاقت کے بے جا استعمال اور قائدین کی شخصیت پرستی پر انحصار کرتی ہے، حقیقی بحران میں ناپائیدار ثابت ہوئی۔ اس کے برعکس، پاکستان زیادہ بااعتماد، بہتر جڑا ہوا اور جنوبی ایشیا کے مستقبل کو شکل دینے کے لیے بہتر پوزیشن میں آ چکا ہے۔