لندن ہائی کورٹ میں بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی جانب سے یوٹیوبر اور بھگوڑا عادل راجہ کے خلاف دائر ہتکِ عزت کے مقدمے میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ عدالت میں جاری سماعت کے دوران بھگوڑا عادل راجہ اور ان کے تین گواہان سنگین الزامات کے حق میں کوئی بھی قابلِ قبول یا قانونی شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے۔
جج نے دورانِ سماعت بارہا یہ نکتہ واضح کیا کہ الزامات عائد کرنے والے فریق پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے دعووں کو ثبوتوں سے ثابت کرے۔ تاہم، بھگوڑا عادل راجہ نے بار بار پاکستان کے سیکورٹی ادارے کا حوالہ دے کر اصل حقائق سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی، جسے عدالت نے ناقابلِ قبول اور غیر متعلقہ قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کر دیا۔
عدالت میں دیے گئے دلائل میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی ساکھ، پیشہ ورانہ کردار اور سماجی عزت کو ایک منظم مہم کے تحت نشانہ بنایا گیا، جس کا مقصد سوشل میڈیا پر عوام کو گمراہ کرنا اور غلط بیانی کو فروغ دینا تھا۔ راشد نصیر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کو جان بوجھ کر ایک جھوٹے بیانیے کے ذریعے بدنام کیا گیا، اور اس مہم کا کوئی بھی ٹھوس یا معتبر ثبوت موجود نہیں۔
عدالت نے بھگوڑا عادل راجہ کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ سیکورٹی ادارے پر الزامات صرف پروپیگنڈا پر مبنی تھے، جنہیں شواہد کی روشنی میں ثابت نہیں کیا جا سکا۔ یوں عدالت کی جانب سے آئی ایس آئی کو ایک طرح کی “کلین چٹ” مل گئی، جو اس مقدمے کی سب سے بڑی قانونی اور اخلاقی کامیابی قرار دی جا رہی ہے۔
اس مقدمے نے سوشل میڈیا پر آزادیٔ اظہار کے نام پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات، جھوٹے بیانیے اور ذاتی ایجنڈے کے تحت کی جانے والی کردار کشی پر بھی کئی اہم سوالات اٹھا دیے ہیں۔ عدالت نے واضح اشارہ دیا کہ بغیر ثبوت کے کسی بھی فرد یا ادارے پر سنگین نوعیت کے الزامات لگانا نہ صرف غیر ذمہ دارانہ صحافت ہے بلکہ اس کے قانونی نتائج بھی بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔
اب عدالت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ جھوٹے الزامات کے باعث بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچا، اور اس کا ازالہ کس صورت ممکن ہے۔ کیس کی نوعیت اور پیش رفت کو دیکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ فیصلہ بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے حق میں ہی آئے گا۔