سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے، سماعت کے دوران بینچ ممبر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ ’ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کسی بھی ملزم کی حوالگی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہوگی۔
جمعرات کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت کے دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کمانڈنگ آفیسرز نے ملزمان کی حوالگی کےلیے درخواستیں دیں، درخواستوں کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوا کہ ابتدائی تفتیش میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا جرم بنتا ہے، درخواست کے یہ الفاظ اعتراف ہیں کہ تفتیش مکمل نہیں ہوئی تھی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزمان کی حوالگی کے لیے جو وجوہات دیں وہ مضحکہ خیز ہیں، انسداد دہشتگردی عدالت کے ایڈمنسٹریٹو جج نے ملزمان کی حوالگی کے احکامات دیے لیکن انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزمان کو تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی قصوروارلکھ دیا۔
فیصل صدیقی کے دلائل کے دوران بینچ ممبر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ راولپنڈی اور لاہور کی عدالتوں کے حکم ناموں کے الفاظ بالکل ایک جیسے ہیں جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لگتا ہے انسداد دہشتگردی عدالتوں کے ججز کی انگریزی کے کافی مسائل ہیں۔
اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی کا حکم عدالت دے سکتی ہے، کوئی ایڈمنسٹریٹو جج نہیں دے سکتا، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’ملزمان کی حوالگی کا قانونی اختیار کس کے پاس ہے؟ جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ آرمی ایکٹ سیکشن 59(1) کے تحت فوجی افسران کی قتل و دیگر جرائم میں سول عدالت سے کسٹڈی لی جا سکتی ہے۔
فیصل صدیقی کے ان دلائل پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’میرے حساب سے تو 59(4) کا اطلاق بھی ان پر ہی ہوتا ہے جو آرمی ایکٹ کے تابع ہوں‘، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت حوالگی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہوگی۔
اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ جن مقدمات میں حوالگی کی درخواستیں دی گئیں ان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات عائد نہیں تھیں، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک ایف آئی آر میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات بھی عائد تھیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ ایف آئی آر مجھے ریکارڈ میں نظر نہیں آئی، اس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ حوالہ ایف آئی آر پڑھیں، اس میں الزام فوجی تنصیب کے باہرتوڑپھوڑ کا ہے۔