نیویارک کی سیاست میں تاریخ رقم ، ظہران ممدانی نے شہر کے پہلے مسلم میئر بن کر نہ صرف امریکی سیاست میں ایک نئی مثال قائم کی ہے بلکہ متنوع معاشرتی نمائندگی کو بھی نئی جہت دی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کھلی مخالفت کے باوجود 34 سالہ ظہران ممدانی امریکہ کے بڑے شہروں میں شمار ہونے والے شہر نیویارک کے میئر کے الیکشن میں کامیابی اپنے نام کرچکے ہیں ، 34 سالہ ممدانی 100 سال سے بھی زائد عرصے میں شہر کے سب سے کم عمر میئر ہوں گے، وہ اس عہدے پر فائز ہونے والے پہلے مسلمان اور جنوبی ایشیائی شخص ہوں گے۔
صرف یہی باتیں ان کی سابق گورنر اینڈریو کوومو اور ریپبلکن امیدوار کرٹس سلیوا کے خلاف ان کی فتح کو قابل ذکر بناتی ہیں، لیکن اس سے بڑھ کر، ممدانی اس قسم کی سیاست کی نمائندگی کرتے ہیں جس کی پارٹی میں موجود بائیں بازو کے بہت سے لوگ برسوں سے منتظر تھے۔
وہ نوجوان اور کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ اپنی نسل کے باعث ڈیموکریٹک پارٹی کو مختلف نسلوں میں حاصل حمایت کے عکاس ہیں ، وہ کسی بھی سیاسی لڑائی سے پیچھے نہیں ہٹے اور بڑے فخر کے ساتھ اپنے بائیں بازو کے خیالات کا دفاع کرتے ہیں۔
ظہران ممدانی نے دکھایا ہے کہ وہ ان بنیادی معاشی مسائل پر توجہ مرکوز کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو ان محنت کش طبقے کے ووٹرز کی ترجیح رہی ہے جو حال ہی میں ڈیموکریٹک پارٹی سے دور ہو رپے تھے۔
صرف چند ماہ پہلے تک ممدانی زیادہ مشہور نہیں تھے، ان کا ایک ہپ ہاپ آرٹسٹ اور ہاؤسنگ کونسلرسے نیو یارک سٹیٹ اسمبلی کے رکن اور پھر سب سے بڑے امریکی شہر کے میئر کے اہم امیدوار تک کا سفر یقیناً متاثر کن ہے۔
ان کا پورا نام ظہران کوامے ممدانی ہے، وہ 1991 میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے، ان کے والد محمود ممدانی ایک انڈیا یوگانڈا نژاد سیاست کے ماہر پروفیسر ہیں جبکہ ان کی والدہ میرا نائر بالی وڈ اور ہالی وڈ میں فلمساز ہیں، انھوں نے مون سون ویڈینگ اور دی نیم سیک جیسی اہم فلمیں بنائی ہیں۔
زہران اپنی خاندان کے ساتھ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں بھی رہے ہیں لیکن جب وہ سات سال کے تھے تو خاندان کے ساتھ نیو یارک آ گئے، انھوں نے نیو یارک کے برونکس علاقے میں پرورش پائی جو کہ ایک ورکنگ کلاس اور ثقافتی تنوع سے بھرپور علاقہ ہے۔ انھوں نے ‘افریقانا سٹڈیز’ میں گریجویشن کیا ہے اور فلسطینیوں کے حقوق کے لیے سرگرم رہے ہیں۔
سنہ 2024 میں ان کی شادی شامی نژاد امریکی آرٹسٹ راما دواجی سے ہوئی ، تعلیم حاصل کرنے کے بعد زہران نے بطور ’فورکلوزر پریوینشن کونسلر‘ کام کیا جس کا مطلب ایک ایسا مشیر ہے جو غریب خاندانوں کو گھروں سے قرض کی وجہ سے جبری بے دخلی سے بچانے میں مدد دیتا ہے اور جس کا اثر ان کی عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی سیاست پر واضح ظاہر ہے۔
سیاست کی طرف رخ کرنے سے پہلے زہران ممدانی نے فنکاری میں اپنی قسمت آزمایا تھا۔
سال 2020 میں انھوں نے نیویارک سٹیٹ اسمبلی کے لیے انتخاب لڑا اور دس سال تک جیتنے والے رکن کو شکست دے دی ، وہ ریاستی اسمبلی میں منتخب ہونے والے پہلے جنوبی ایشیائی مرد، پہلے یوگنڈا نژاد اور صرف تیسرے مسلمان بنے۔
روٹی، کپڑا، مکان اور مفت بسوں کا انتخابی نعرہ
ظہران کی مہم میں لوگوں کو کافی دلچسپی تھی کیونکہ انھوں نے ایسے مسائل اٹھائے ہیں جو کہ نیو یارک جیسے مہنگے شہر کے عام لوگوں کو متاثر کرتے ہیں ، ظہران کی میئرشپ کی مہم بنیادی طور پر ایک سوشلسٹ نظریہ پیش کرتی ہے جس میں انھوں نے شہر میں رہائش، نقل و حمل اور کھانے کی سہولیات کو زیادہ منصفانہ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران ظہران ممدانی کو شدید مخالفت کا سامنا
انتخابی مہم کے دوران ظہران ممدانی کو شدید دباؤ اور مخالفت کا سامنا رہا، انہیں اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور ٹرمپ کے حامی حلقوں کی جانب سے سخت تنقید اور مہم میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ممدانی پر کئی بار تنقید کی اور یہاں تک کہ انہیں ملک بدر کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔
اس تمام مخالفت کے باوجود ممدانی نے حوصلہ نہیں ہارا اور اپنے پیغام پر مضبوطی سے قائم رہے، اپنی تقریروں میں انہوں نے واضح کیا کہ ہم یہاں صرف شہر نہیں، بلکہ اس سوچ کو بدلنے آئے ہیں جو سمجھتی ہے کہ عام لوگ کچھ نہیں بدل سکتے اور ان کی یہی سوچ انہیں کامیابی دلوانے میں کارگر ثابت ہوچکی ہے ۔
عوام نے ثابت کردیا کہ طاقت ان کے ہاتھ میں ہے، الیکشن جیتنے کے بعد ظہران ممدانی کا پہلا خطاب
نیو یارک میں میئر کا انتخاب جیتنے والے زہران ممدانی نے ووٹرز سے خطاب میں کہا ہے کہ ہم نے نیویارک میں تاریخ رقم کردی، نیویارک میں موروثی سیاست کا خاتمہ کردیا، عوام نے ثابت کردیا کہ طاقت ان کے ہاتھ میں ہے، مستقبل ہمارے ہاتھ میں ہے، نیویارک نے آج تبدیلی کے لیے ووٹ دیا، یکم جنوری کو نیویارک میئر کے عہدے کا حلف اٹھاؤں گا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق زہران ممدانی نے کہا کہ ’اگرچہ آج شام ہمارے شہر پر سورج غروب ہو چکا ہے، مگر جیسا کہ یوجین ڈیبز نے کہا تھا، میں انسانیت کے لیے ایک بہتر دن کی صبح دیکھ رہا ہوں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میرے دوستو، ہم نے موروثی سیاست کا خاتمہ کردیا ہے، میں اینڈریو کومو کے لیے ذاتی زندگی میں نیک تمنائیں رکھتا ہوں، لیکن آج کی رات کے بعد، یہ آخری بار ہے کہ میں اس کا نام لوں گا‘
ممدانی نے کہا کہ اس سیاسی اندھیرے کے دور میں، نیویارک کو روشنی بننے دو، انہوں نے وعدہ کیا کہ نیویارک پورے ملک کے لیے ایک مثال ثابت ہوگا، جو دوسروں کے حقوق کی حفاظت کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’چاہے آپ ایک مہاجر ہوں، ٹرانس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہوں، ان بے شمار سیاہ فام خواتین میں سے ایک ہوں جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی نوکری سے نکالا، ایک اکیلی ماں ہوں جو اب بھی راشن سستا ہونے کی منتظر ہے، یا کوئی بھی شخص ہو جو مشکلات میں گھرا ہوا ہے، آپ کی جدوجہد ہماری جدوجہد ہے‘۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ظہران ممدانی کی جیت صرف نیویارک کی حد تک محدود نہیں، بلکہ یہ امریکی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہے ، ایک ایسا دور جس میں مختلف نسلوں، مذہب اور سماجی طبقات سے تعلق رکھنے والے رہنما عوامی مسائل اور مساوات کو سیاست کا محور بنا رہے ہیں۔