امریکا میں ایک بڑے گوردوارہ کی انتطامیہ نے ٹرمپ انتظامیہ پر ہندو امریکن فاؤنڈیشن (ایچ اے ایف) کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ پنسلوانیا میں قائم گروپ بھارتی حکومت اور وزیراعظم نریندر مودی کے لیے ’غیر ملکی ایجنٹ‘ کے طور پر کام کر رہا ہے۔
دی گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق فریمونٹ گوردوارہ صاحب، جو ہر ہفتے 5000 سکھ عقیدت مندوں کی خدمت کرتا ہے اور عالمی سکھ برادری کا ایک مرکزی حصہ سمجھا جاتا ہے، نے امریکی محکمہ انصاف (ڈی او جے) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ آیا ایچ اے ایف کو بھارت کے ایجنٹ کے طور پر رجسٹر کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟۔
فریمونٹ گوردوارہ کا ماننا ہے کہ گروپ کو اپنی سرگرمیوں کے بارے میں شفاف ہونا چاہیے، جس میں امریکی قانون سازوں کے ساتھ کسی بھی طرح کی بات چیت اور بھارتی حکومت کے ساتھ روابط شامل ہیں۔
گوردوارے کے ترجمان نے امریکی اٹارنی جنرل پام بونڈی کو ایک خط میں لکھا ہے کہ ایچ اے ایف نے غیر ملکی عہدیداروں اور امریکی قانون سازوں کے درمیان ملاقاتوں میں سہولت فراہم کی ہے، اپنی تقریبات میں غیر ملکی عہدیداروں کی میزبانی کی ہے اور ملکی اور بین الاقوامی دونوں معاملات پر بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کھلے عام حمایت کی ہے۔
ایچ اے ایف نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اصرار کیا کہ یہ ایک غیر جانبدار خیراتی ادارہ ہے جس کا کسی غیر ملکی حکومت یا سیاسی گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فاؤنڈیشن نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ خالصتان تحریک کے حامی، جو ایک آزاد سکھ ریاست چاہتے ہیں، ایچ اے ایف کے خلاف ’مربوط مہم‘ چلانا چاہتے ہیں۔
ایچ اے ایف کا کہنا ہے کہ ہم اٹارنی جنرل پام بونڈی، ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل، نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر تلسی گبرڈ اور دیگر سیکیورٹی حکام سے ملاقات کے لیے تیار ہیں تاکہ الزامات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
یہ دعوے ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ایک آزاد ریاست کے لیے زور دینے والے سکھوں اور بھارتی حکومت کے درمیان کشیدگی جاری ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ بھارتی حکومت نے بیرون ملک سکھوں کو خاص طور پر 2023 میں خالصتان کے کینیڈین وکیل ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے بعد نشانہ بنایا ہے۔
کینیڈین حکومت نے کہا ہے کہ اس کا ماننا ہے کہ نجار کی موت میں ہندوستانی ایجنٹ ملوث تھے۔ امریکا میں استغاثہ نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ امریکا میں مقیم ایک سکھ کارکن کو قتل کرنے کی کوشش کے پیچھے ایک بھارتی ایجنٹ کا ہاتھ ہے۔
الجزیرہ کی ایک حالیہ تحقیقات میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ایچ اے ایف ، جو ابتدائی طور پر امریکا میں ہندو کمیونٹی کی نمائندگی کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی، نے 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ہندوستانی حکومت کے لیے لابنگ کی ہے۔
اس گروپ پر مودی کی پالیسیوں کے حق میں اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کرنے کا الزام ہے۔
اگرچہ ایچ اے ایف پر سکھوں کے خلاف تشدد کی حمایت کرنے کا الزام نہیں لگایا گیا ہے ، لیکن گوردوارہ کے خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایچ اے ایف کے اقدامات کی غیر ملکی ایجنٹرجسٹریشن ایکٹ کے تحت تحقیقات کی جائیں۔
اگرامریکی محکمہ انصاف یہ طے کرتا ہے کہ ایچ اے ایف حکومت ہند کی جانب سے کام کر رہا ہے تو اسے اپنی سرگرمیوں کی تفصیلات ظاہر کرنے کی ضرورت ہوگی، جس میں ہندوستان کے ساتھ کسی بھی مالی تعلقات بھی شامل ہیں۔
واشنگٹن میں ہندوستانی سفارت خانے نے تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
خالصتان تحریک کیا ہے؟
سکھ کمیونٹی بھارت کی مرکزی حکومت کی ناانصافیوں پر ایک آزاد سکھ ریاست چاہتی ہے جو ہندوستان سے الگ ہو ۔
سکھ مذہب کی بنیاد 15 ویں صدی کے آخر میں پنجاب میں رکھی گئی تھی اور اس وقت دنیا بھر میں اس کے تقریباً 25 ملین پیروکار ہیں۔ سکھ پنجاب کی آبادی کی اکثریت ہیں لیکن ہندوستان میں اقلیت ہیں، جو اس کی 1.4 بلین کی آبادی کا 2 فیصد ہیں۔
سکھ علیحدگی پسندوں کا مطالبہ ہے کہ ان کا وطن خالصتان، جس کا مطلب ہے ’خالص کی سرزمین‘، پنجاب سے باہر بنایا جائے۔
یہ مطالبہ کئی بار دوبارہ سامنے آیا ہے، خاص طور پر 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں پرتشدد بغاوت کے دوران جس نے پنجاب کو ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک مفلوج کر رکھا تھا۔
چند ماہ بعد گاندھی کو ان کے سکھ محافظوں نے نئی دہلی میں ان کے گھر پر قتل کر دیا تھا۔ فوج نے 1986 اور 1988 میں پنجاب سے سکھ عسکریت پسندوں کا صفایا کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا تھا۔