واشنگٹن ڈی سی، نیویارک، لاس اینجلس، ورجینیا، شکاگو سمیت امریکا کے 2700 سے زیادہ شہروں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت اور پالیسیوں کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ ’’نو کنگ‘‘ (No King) کے عنوان سے منعقد ان مظاہروں میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور صدر ٹرمپ کو آمرانہ طرزِ حکمرانی اپنانے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
لاکھوں افراد کا سڑکوں پر احتجاج، نظام زندگی متاثر
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق صرف شکاگو شہر میں ڈھائی لاکھ افراد نے مظاہروں میں حصہ لیا، جبکہ مجموعی طور پر ملک بھر میں 70 لاکھ سے زیادہ افراد نے احتجاج میں شرکت کی۔ مظاہرین نے’بادشاہت نامنظور‘ ، ’ہم ٹرمپ کی آمریت نہیں مانتے‘، اور ’جمہوریت بچاؤ‘ جیسے نعرے لگائے۔ مظاہروں کے باعث کئی شہروں میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا جبکہ بعض مقامات پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان تناؤ بھی دیکھنے میں آیا۔
ٹرمپ مخالف احتجاج صرف امریکہ تک محدود نہیں رہا بلکہ جرمنی کے دارالحکومت برلن اور برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں بھی امریکی سفارتخانوں کے باہر مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین نے ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی، امیگریشن قوانین اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر آواز بلند کی۔
مظاہرین کے اہم مطالبات اور خدشات
احتجاج کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی حکومت امیگریشن، تعلیم اور سیکیورٹی کے شعبوں میں جارحانہ اور غیر جمہوری پالیسیاں اپنا رہی ہے۔ خاص طور پر تارکین وطن کی بے دخلی کے لیے وفاقی ایجنسیوں کے چھاپے اور بعض ریاستوں میں فوج کی تعیناتی نے عوام میں غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔ مظاہرین نے خبردار کیا کہ یہ اقدامات امریکہ کو جمہوریت سے آمریت کی طرف لے جا رہے ہیں۔
سیاسی تناظر، شٹ ڈاؤن اور بڑھتا ہوا سیاسی بحران
مظاہرے ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب امریکہ کو شدید سیاسی تعطل کا سامنا ہے اور وفاقی حکومت شٹ ڈاؤن کی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ حکومتی نظام میں تعطل، بجٹ کی منظوری میں تاخیر اور کانگریس و وائٹ ہاؤس کے درمیان اختلافات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی کا ردعمل
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظاہروں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو ’بادشاہ‘ نہیں سمجھتے اور ہمیشہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلے کرتے ہیں۔ دوسری جانب ریپبلکن رہنماؤں نے مظاہروں کو ’امریکا مخالف ایجنڈے‘ کا حصہ قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ مظاہرین عوام کو گمراہ کر رہے ہیں اور ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مستقبل میں مزید مظاہروں کا امکان
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ملک بھر میں احتجاجی تحریک میں مزید شدت آ سکتی ہے۔ مظاہرین نے عندیہ دیا ہے کہ اگر حکومت نے پالیسیاں تبدیل نہ کیں تو احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔
یہ مظاہرے امریکا میں سیاسی شعور کی نئی لہر کو ظاہر کر رہے ہیں، جو جمہوریت، مساوات اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہو رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ عوامی جذبات کو سنجیدگی سے لے اور ایسے فیصلوں سے گریز کرے جو جمہوری اقدار کے منافی ہوں۔