خیبرپختونخوا، محکمہ صحت میں کروڑوں کی کرپشن کیسے ہوئی؟ فنڈز نکال کر اخراجات کہاں ظاہر کیے گئے؟

خیبرپختونخوا، محکمہ صحت میں کروڑوں کی کرپشن کیسے ہوئی؟ فنڈز نکال کر اخراجات کہاں ظاہر کیے گئے؟

خیبر پختونخوا محکمہ صحت میں ڈینگی اور کورونا کے فنڈز میں بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

ڈینگی ایکشن پلان، کورونا وبا اور پشاور کے ثانوی اسپتالوں کے لیے مختص 20 کروڑ 87 لاکھ روپے سے زائد فنڈز مختلف غیر متعلقہ کاموں میں خرچ کیے گئے، علاوہ ازیں دیگر کروڑوں روپے بھی فیول، گاڑیوں کی مرمت اور سٹیشنری کی خریداری پر خرچ کی گئی ہے جن میں سے بیشتر ادائیگیاں مشکوک قرار دی گئی ہیں۔ محکمہ صحت کی جانب سے کی گئی انکوائری میں تین افسران کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، جن میں سے ایک کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیا گیا ہے۔

آزاد ڈیجٹل کے پاس موجود سرکاری دستاویزات کے مطابق، ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کے ڈیزگنیٹیڈ اکاؤنٹ سے مذکورہ فنڈز کو غیر قانونی طور پر نکال کر ریگولر بجٹ کے کاموں میں استعمال کیا گیا۔ ان اخراجات میں 1 کروڑ 32 لاکھ روپے فیول، 7 کروڑ 99 لاکھ روپے سٹیشنری، 6 کروڑ 92 لاکھ روپے گاڑیوں کی مرمت، اور 4 کروڑ 75 لاکھ روپے دیگر مدوں میں خرچ ظاہر کیے گئے ہیں۔

مزید انکشاف ہوا ہے کہ مالی سال 2023-24 کے دوران گاڑیوں کی مرمت پر 13 کروڑ 25 لاکھ روپے سے زائد خرچ کیے گئے، جن میں سے 6 کروڑ 66 لاکھ روپے ’’ایم ایس عامر ٹریڈنگ کمپنی‘‘ کو ادا کیے گئے۔ تاہم اس کمپنی کا گاڑیوں کی مرمت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ حیران کن طور پر ایک گاڑی کے لیے 3 لاکھ روپے کے ٹائر، 2 لاکھ روپے کی بیٹری، اور ایک ہینو بس پر 13 لاکھ اور دوسری پر 16 لاکھ روپے خرچ ظاہر کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت اب بھی پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے، وزیر اطلاعات عطا تارڑ

دستاویزات کے مطابق 2 کروڑ 75 لاکھ روپے مزید 17 گاڑیوں کی مرمت پر خرچ کیے گئے جن میں سے 9 گاڑیاں ایسی ہیں جو ڈائریکٹر جنرل جی ہیلتھ آفس کے ریکارڈ میں موجود ہی نہیں۔ اسی طرح 36 چھوٹی گاڑیوں پر 4 کروڑ 50 لاکھ روپے مرمت کی مد میں نکالے گئے، جن میں سے صرف تین سوزوکی سوئفٹ گاڑیوں پر 38 لاکھ 44 ہزار روپے خرچ ظاہر کیے گئے۔

اس طرح سٹیشنری کی خریداری میں بھی بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ دستاویزات کے مطابق 17 کروڑ 20 لاکھ روپے سٹیشنری کی خرید پر خرچ ظاہر کیے گئے، جن میں سے 7 کروڑ 99 لاکھ روپے ڈیزگنیٹیڈ اکاؤنٹ سے نکالے گئے۔ نہ تو اس سٹیشنری کی انسپکشن کی گئی اور نہ تصدیق۔ بعض ریکارڈز میں 500 بال پوائنٹس فی عدد 180 روپے میں خریدنے کا اندراج ہے، جبکہ مارکیٹ میں اسی قلم کی قیمت صرف 70 سے 100 روپے تک ہے۔ دیگر درجنوں اشیا جو ظاہر کی گئی ہے کہ اس کو بھی خریدا گیا ہے نہ سٹور میں موجود ، نہ لاگ بک میں کوئی اندراج اور نہ ہی اس کی انسپکشن رپورٹ موجود ہے ۔

ایندھن (فیول) کے اخراجات میں بھی سنگین بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ 9 کروڑ 93 لاکھ روپے ایسے افسران اور ملازمین کی گاڑیوں کے لیے خرچ ظاہر کیے گئے جو اس کے مجاز نہیں تھے۔ 37 ایسی گاڑیوں کو بھی فیول کی فراہمی ظاہر کی گئی ہے جو محکمہ صحت کے ریکارڈ میں موجود ہی نہیں۔
سابق صوبائی حکومت نے مالی بحران کے باعث جون 2022 میں افسران کے فیول الاؤنس میں 35 فیصد کمی کا حکم دیا تھا، مگر اس پر عمل نہ ہونے سے 20 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان پہنچا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان جلد علاقائی تجارتی ہب بننے جا رہا ہے، وفاقی وزیر احسن اقبال

مزید یہ کہ 6 کروڑ 82 لاکھ روپے لیڈی ہیلتھ سپروائزرز کے ذاتی اکاؤنٹس میں براہِ راست فیول کے نام پر منتقل کیے گئے حالانکہ قانون کے مطابق ایندھن کے پیسے براہ راست کسی فرد کو نہیں دیے جا سکتے۔ 224 لیڈی ہیلتھ سپروائزرز کو 65 لاکھ روپے ٹی اے/ڈی اے کی مد میں غیر قانونی ادائیگی بھی ظاہر کی گئی ہے۔
محکمہ صحت نے سابق ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر سلیم کے دور میں فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کا آغاز کیا تھا، جو مکمل ہو کر سیکرٹری صحت کو بھجوائی جا چکی ہے۔ انکوائری میں ایک اکاؤنٹنٹ محمد دیان کو ذمہ دار قرار دے کر موجودہ ڈی جی شاہد یونس نے چارج شیٹ جاری کر دیا ہے، جبکہ سابق ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر شوکت علی اور سابق ڈائریکٹر ایڈمن ڈاکٹر مبشر احمد دونوں ریٹائرڈ ہوچکے ہیں ان کے خلاف سیکرٹری ہیلتھ کو کارروائی کی سفارش کی گئی ہے ۔
رابطہ کرنے پر ڈجی ہیلتھ ڈاکٹر شاہد یونس نے بتایا کہ انکوائری سیکرٹری ہیلتھ کو ارسال کی گئی ہے ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *